Maktaba Wahhabi

226 - 315
میرے ساتھ کیا کیا جائے گا اور تمھارے ساتھ کیا کیا جائے گا۔میں تو بس اسی کی اتباع کرتا ہوں جو میرے پاس وحی آتی ہے اور میں تو صرف ایک، صاف صاف ڈرانے والا ہوں۔‘‘[1] یعنی میں اپنے لیے نہ غیب دانی کا دعویدار ہوں اور نہ ایسی قوتوں کا مالک ہوں جو قانون فطرت سے ماوراء ہیں، میں اللہ کا ایک بندہ ہوں جس طرح دوسرے اللہ کے بندے ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ میرا تعلق وحی الٰہی سے جڑا ہوا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے جو کچھ وحی کے ذریعے سے بتا دیتا ہے بس مجھے اُسی بات کا علم ہو جاتا ہے۔بذریعہ وحی علم ہونا خود اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غیب نہیں جانتے تھے۔ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ آپ کو جو علم تھا وہ دیگر لوگوں کو نہیں تھا۔عام لوگوں کے لیے قرآن سارا غیب تھا۔خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی غیب تھا۔یہ غیب اللہ تعالیٰ نے رفتہ رفتہ وحی کے ذریعے سے آپ کو بتایا اور آپ نے لوگوں کو بتایا۔اس ضمن میں عطائی علم غیب کا فلسفہ بھی درست نہیں۔اس سے مراد اگر دین اور اس کے متعلقہ امور ہیں تو یہ علم بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا، جتنا دیا اس کا آپ کو علم ہوگیا۔لیکن اگر یہ کہا جائے کہ دنیا کی کوئی چیز آپ سے پوشیدہ نہیں تھی، ہر چیز کا علم آپ کو عطا کر دیا گیا تھا تو یہ نہ صرف عقل و نقل کے اعتبار سے غلط ہے بلکہ قرآن اور خود صاحب قرآن کی تعلیمات سے بھی بالکل کھلم کھلا انحراف ہے۔سینکڑوں معاملات ایسے تھے جن کا آپ کو کوئی علم نہ تھا۔اللہ تعالیٰ کے بتانے کے بعد آپ کو ان معاملات کا پتہ چلا۔ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر بہتان کی اصل حقیقت اور رعل و ذَکوان قبائل کا دھوکے سے صفہ کے قراء کو لے جا کر شہید کرنا اس حقیقت کی واضح مثالیں ہیں۔ اگر کوئی شخص اپنے لیے علم غیب کا دعویٰ کرے، جیسے دست شناسی، علم نجوم کے ذریعے سے قسمت کا حال بتانا، کہانت اور جادو گری وغیرہ تو یقینا ان افعال کے مرتکب سب افراد جھوٹے اور کفر کا ارتکاب کرنے والے ہیں۔اسی طرح وہ سب لوگ بھی جھوٹے، مکار اور شعبدہ باز ہیں جو گم شدہ اشیاء یا بعض پوشیدہ چیزوں کے بارے میں جنوں اور شیطانوں کے تعاون سے عام لوگوں کو خبریں بتاتے ہیں۔ایسی باتیں بسا اوقات بظاہر
Flag Counter