Maktaba Wahhabi

199 - 315
’’وہاں بات بھی صرف وہی کرے گا جسے رحمن اجازت دے گا اور وہ بات بھی ٹھیک ٹھیک کرے گا۔‘‘[1] اس سفارش کی بنیاد اعمال پر ہوگی۔محض کسی کی رشتہ داری یا قرب، سببِ سفارش نہیں ہوگا۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب حکم ہوا کہ اپنے قرابت داروں کو ڈرائیں تو آپ نے انھیں اکٹھا کر کے جو خطاب فرمایا، اُس کی روشنی میں شفاعت کا صحیح مفہوم خودبخود واضح ہو جاتا ہے۔ اس خطاب میں آپ نے قریش اور خاندان کے بعض افراد کے نام لینے کے بعد اپنی سب سے محبوب بیٹی کو یوں مخاطب کیا: ((یَا فَاطِمَۃَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ!سَلِینِی مَا شِئْتِ مِنْ مَّالِی، لَا أُغْنِی عَنْكِ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا)) ’’اے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی بیٹی فاطمہ!(آج اس دنیا میں) میرے مال میں سے جو تم لینا چاہو وہ لے لو، کل قیامت کے دن (اگر اللہ تعالیٰ نے کسی بات پر باز پرس کر لی تو) میں تمھیں اللہ سے نہیں بچا سکوں گا۔‘‘[2] اس ارشادِ عالی کے ذریعے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی کو خبردار کر دیا کہ قیامت کے دن میں تمھیں اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے نہیں بچا سکتا کیونکہ سفارش تو اللہ کی اجازت کے بعد ہونی ہے اور اگر اجازت دینے والا ہی کس بات پر پکڑ لے تو کون کسی کو بچا سکے گا؟ اللہ کا فضل و کرم حاصل کرنے کے لیے تمھیں خود ایمان کی مضبوطی اور اعمالِ صالحہ کا توشہ اکٹھا کرنا پڑے گا۔یوں گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری امت کو بے عملی کی زندگی اختیار کرنے سے ڈرایا اور عمل کی راہ اختیار کرنے کا درس دیا۔اس طرح گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی بتا دیا کہ روز قیامت سفارش کرنے والوں کو صرف انھی لوگوں کے بارے میں سفارش کرنے کی اجازت دی جائے گی جو اس دنیا میں ایمان اور نیک عملی کی زندگی بسر کریں گے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی: اللہ کے رسول!قیامت کے دن آپ کی شفاعت کا سب سے زیادہ حصہ حاصل کرنے والا کون شخص ہوگا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أَسْعَدَ النَّاسِ بِشَفَاعَتِی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مَنْ قَالَ: لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ خَالِصًا مِّنْ قَلْبِہِ))
Flag Counter