Maktaba Wahhabi

172 - 315
میں فرق کرنا ضروری ہے۔امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’تاویل کرنے والے اور صاحبِ عذر جاہل شخص کا حکم وہ نہیں جو بغض وعناد رکھنے والے شخص اور فاجروبدکار کا ہے۔ان ہر دوقسم کے افراد کا حکم علیحدہ علیحدہ ہے۔‘‘[1] انھوں نے مزید لکھا ہے: ’’جب یہ بات صاف ہوگئی تو ان جاہلوں میں سے کسی شخص کے بارے میں متعین طور پر یہ حکم لگانا جائز نہیں کہ وہ کافروں کے ساتھ ہے اِلاّ یہ کہ ان میں سے کسی پر پیغام کے ذریعے سے حجت قائم ہو جائے جس سے اس پر یہ واضح ہوجائے کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا مخالف ہے۔متعین طور پر کسی کو کافر قرار دینے کا یہی ضابطہ ہے۔‘‘[2] سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ((كَانَ رَجُلَانِ فِی بَنِی إِسْرَائِیلَ مُتَوَاخِیَیْنِ، فَكَانَ أَحَدُھُمَا یُذْنِبُ، وَاْلآخَرُ مُجْتَھِدٌ فِی الْعِبَادَۃِ، فَكَانَ لَا یَزَالُ الْمُجْتَھِدُ یَرَی اْلآخَرَ عَلَی الذَّنْبِ، فَیَقُولُ: أَقْصِرْ۔فَوَجَدَہُ یَوْمًا عَلٰی ذَنْبٍ، فَقَالَ لَہُ: أَقْصِرْ۔فَقَالَ: خَلِّنِی وَرَبِّی أَبُعِثْتَ عَلَیَّ رَقِیبًا؟ فَقَالَ: وَاللّٰہِ!لَا یَغْفِرُ اللّٰہُ لَكَ أَوْ لَا یُدْخِلُكَ اللّٰہُ الْجَنَّۃَ، فَقَبَضَ أَرْوَاحَھُمَا، فَاجْتَمَعَا عِنْدَ رَبِّ الْعَالَمِینَ، فَقَالَ لِھٰذَا الْمُجْتَھِدِ: أَكُنْتَ بِی عَالِمًا، أَوْ كُنْتَ عَلٰی مَا فِی یَدِی قَادِرًا؟ وَقَالَ لِلْمُذْنِبِ: اِذْھَبْ فَادْخُلِ الْجَنَّۃَ بِرَحْمَتِی، وَقَالَ لِلْآخَرِ: اِذْھَبُوا بِہِ إِلَی النَّارِ)) ’’بنی اسرائیل کے دو افراد ایک دوسرے کے بھائی بنے ہوئے تھے۔ان میں سے ایک گناہ گار تھا جبکہ دوسرا عبادت میں کوشاں رہتا تھا۔عبادت میں مشغول رہنے والا جب بھی دوسرے کو گناہ کرتے دیکھتا تو اسے کہتا: باز آجاؤ۔ایک روز اس نے اسے گناہ کرتے دیکھا اور کہا: باز آجاؤ۔اس نے جواب دیا: میں جانوں اور میرا اللہ، میرا معاملہ میرے رب کے ساتھ ہے۔کیا اللہ تعالیٰ نے تمھیں میرا نگران بنا کر بھیجا ہے؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم!اللہ تجھے نہیں بخشے گا (یاکہا: اللہ تجھے
Flag Counter