Maktaba Wahhabi

153 - 315
صوفی روایات کے مطابق حضرت با یزید بسطامی نے بھی اسی عقیدے کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا ہے: سُبْحَانِی، مَا أَعْظَمُ شَأنِی (میں پاک ہوں، میری شان کتنی بلند ہے!) وحدت الوجود یا حلول کا نظریہ ماننے والے حضرات کو نہ تو خود خدائی کا دعویٰ کرنے میں کوئی دقت محسوس ہوتی ہے اور نہ ان کے پاس کسی دوسرے کے دعوائے خدائی کو مسترد کرنے کا کوئی جواز ہی ہوتا ہے۔یہاں ایک واقعے کا تذکرہ یقینا قارئین کی دلچسپی کا باعث ہوگا جسے ’’حقیقت الوجود‘‘ کے مصنف عبدالحکیم انصاری نے اپنی کتاب میں تحریر کیا ہے جو کہ حسب ذیل ہے: ’’ہمارے ایک چشتیہ خاندان کے پیر بھائی صوفی جی کے نام سے مشہور ہیں، ایک دن میرے پاس آئے تو ہم مل کر چائے پینے لگے۔چائے پیتے پیتے صوفی جی کے چہرے پر ’’کیفیت‘‘ کے اثرات نمایاں ہوئے، چہرہ سرخ ہوگیا، آنکھوں میں لال ڈورے ابھر آئے، پھر کچھ نشہ کی سی حالت طاری ہوئی، یکایک صوفی جی نے سر اٹھایا اور کہنے لگے: ’’بھائی جان!میں خدا ہوں۔‘‘ اس پر میں نے زمین سے ایک تنکا اٹھایا اور اس کے دو ٹکڑے کر کے صوفی صاحب سے کہا: ’’آپ خدا ہیں تو اسے جوڑ دیجیے۔‘‘ صوفی صاحب نے دونوں ٹوٹے ہوئے ٹکڑوں کو ملا کر ان پر ’’توجہ‘‘ فرمائی لیکن کیا بننا تھا ساتھ ہی ان کی وہ کیفیت بھی غائب ہوگئی جس کی وجہ سے وہ خدائی کا دعویٰ کر رہے تھے۔‘‘[1] یہی وجہ ہے کہ صوفیاء کی شاعری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور اپنے اپنے پیر و مرشد کو اللہ کا روپ یا اوتار کہنے کے عقیدے کا اظہار بکثرت پایا جاتا ہے۔چند اشعار ملاحظہ ہوں: خدا کہتے ہیں جس کو مصطفی معلوم ہوتا ہے جسے کہتے ہیں بندہ خود خدا معلوم ہوتا ہے بجاتے تھے جو إِنِّي عَبْدُہٗ کی بنسری ہر دم خدا کے عرش پر إِنِّي أَنَا اللّٰہُ بن کر نکلیں گے شریعت کا ہے ڈر ورنہ میں یہ کہہ دوں خدا خود ہی رسول خدا بن کے آیا ہے
Flag Counter