Maktaba Wahhabi

152 - 315
جمل اور صفین کی خونریز جنگیں ہوئیں۔اس سارے عرصہ میں عبداللہ بن سبا اور اس کے پیروکاروں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ کا روپ یا اوتار کہنا شروع کر دیا اور مشکل کشا، حاجت روا، عالم الغیب جیسی خدائی صفات ان سے منسوب کرنا شروع کر دیں۔اس مقصد کے حصول کے لیے بعض روایات بھی وضع کی گئیں، مثلاً: جنگ احد میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہوگئے تو جبریل علیہ السلام نے آکر کہا (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم!) ناد علی والی دعا پڑھو، یعنی علی کو پکارو۔جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا پڑھی تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ فوراً آپ کی مدد کو آئے اور کفار کو قتل کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور تمام مسلمانوں کو قتل ہونے سے بچا لیا۔[1] یہودیوں نے فلسفہ حلول کے تحت ہی سیدنا عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا قرار دیا۔عیسائیوں نے اسی فلسفے کے تحت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا قرار دیا۔مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں اہل تشیع اور اہل تصوف کے عقائد کی بنیاد بھی یہی فلسفہ وحدت الوجود اور حلول ہے۔صوفیاء کے سرخیل حسین بن منصور حلاج[2] (ایرانی) نے سب سے پہلے کھلم کھلا یہ دعویٰ کیا کہ اللہ اس کے اندر حلول کر گیا ہے اور اَنَا الْحَق (میں اللہ ہوں) کا نعرہ لگایا۔منصور حلاج کے دعویٰ خدائی کی تائید اور توصیف کرنے والوں میں رومی اور شیخ فریدالدین عطار کے نام شامل کیے جاتے ہیں۔[3] ہم یہاں مثال کے طور پر جناب احمد رضا خان بریلوی کے الفاظ نقل کرنے ہی پر اکتفا کریں گے۔وہ لکھتے ہیں: ’’حضرت موسیٰ علیہ السلام نے درخت سے سنا: اِنِّی أَنَا اللّٰہُ، یعنی میں اللہ ہوں، کیا درخت نے یہ کہا تھا؟ حاشا بلکہ اللہ نے فرمایا تھا، یونہی یہ حضرات (اولیائے کرام) انا الحق کہتے وقت شجرِ موسیٰ ہوتے ہیں۔‘‘[4]
Flag Counter