Maktaba Wahhabi

142 - 315
اس شخص کے فتنے نے زور پکڑا تو عبدالملک نے حجاج بن یوسف کو حکم دیا کہ اسے سخت سزا دے۔حجاج نے اس فتنے کی سرکوبی کی اور اس شخص کو سولی پر لٹکا دیا۔یہ 80 ہجری کا واقعہ ہے۔معبد جہنی کے عقیدے کی خبر جب سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو پہنچی تو انھوں نے اس فرقۂ قدریہ سے برأت کا اظہار کیا۔ معبد کے نظریات کا فتنہ مزید پھیلا تو مسلمانوں کا ایک بہت بڑا گروہ اس سے متأثر ہوا۔سلف صالحین نے لوگوں کو خبردار کیا اور قدریہ کے باطل عقائد و نظریات کی بیخ کنی کی۔تقدیر کے حوالے سے دوسرا گمراہ گروہ وہ تھا جو تقدیر کا سہارا لے کر قتل و غارت اور گناہ کرتے تھے۔وہ گناہ کرتے اور کہتے کہ ہماری تقدیر میں یہی لکھا تھا، ہمارا اس میں کیا قصور ہے؟ تاریخ میں اس گروہ کو جبریہ کہتے ہیں جو انسان کو مجبور محض سمجھتے ہیں کہ انسان اپنی مرضی سے کچھ نہیں کر سکتا بلکہ وہ تقدیر کی بیڑیوں میں جکڑا ہوا ہے۔ عقیدے اور توحید میں بگاڑ کی تیسری وجہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی ذات میں غلو بنا۔صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں شیعان علی کا گروہ نمودار ہوا جنھوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو الٰہ تک قرار دے دیا۔بالآخر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے غلو کرنے والے ایک گروہ کو آگ میں جلا دیا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے زمانے ہی میں ایک شخص عبداللہ بن وہب بن سبأ نے جو تاریخ میں ’’ابن سبا‘‘ کے نام سے معروف ہے، عقیدۂ توحید میں اس طرح رخنہ ڈالا کہ سب سے پہلے تو اس نے یہ پروپیگنڈا کیا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کی وصیت کی تھی اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ خلیفہ بلا فصل ہیں، نیز امامت کا موجودہ شیعہ عقیدہ بھی اسی کی پیداوار ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد اس نے عقیدہ رجعت علی متعارف کرایا اور کہا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ وفات کے بعد دوبارہ زندہ ہوگئے ہیں اور انھوں نے صرف پردہ کیا ہے۔ان کا فوت ہونا محال ہے اور انھیں شہید بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کا جز ہیں اور وہ مختلف صورتوں میں دنیا میں نمودار ہوتے ہیں۔وہ بادلوں میں تشریف لاتے ہیں اور بادلوں میں کڑک انھی کی آواز کی ہوتی ہے اور بادلوں میں چمک درحقیقت ان کا کوڑا ہے جو نظر آتا ہے۔ایک دن آئے گا کہ وہ دنیا میں تشریف لائیں گے اور اسے عدل سے بھر دیں گے۔[1]
Flag Counter