Maktaba Wahhabi

141 - 315
اس مقدس گروہ نے کبھی اللہ تعالیٰ کی صفات کی کوئی تأویل کی نہ تحریف و تشبیہ و تعطیل کی طرف ان کا دھیان گیا بلکہ وہ قرآن و سنت میں وارد صفات کو من و عن تسلیم کرتے تھے۔انھوں نے فلسفہ اور کلامی مباحث میں پڑے بغیر قرآن اور پیغمبر اسلام کے بتائے ہوئے عقیدے کو اپنا لیا اور اسی کے مطابق احکامِ دین پر عمل پیرا رہے۔وجود باری تعالیٰ کے اثبات کے لیے انھیں کسی چیز سے استدلال کرنے اور منطقی دلائل کی ضرورت پیش نہ آئی اور نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو ثابت کرنے کے لیے کبھی عقلی دلائل دینے کی ضرورت پیش آئی۔ جب نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت کا آغاز کیا اور فرمایا: لوگو!لا الہ الا اللہ کہو، فلاح پاجاؤ گے تو حاضرین لاالہ الا اللہ کے مفہوم کو سمجھتے تھے، اس لیے جنھوں نے تسلیم کیا انھوں نے مزید کسی دلیل کی ضرورت محسوس نہ کی اور جنھوں نے انکار کیا وہ معجزے دیکھ کر بھی ایمان نہ لائے۔لیکن ذات باری تعالیٰ کی حقیقت کا ادراک کرنے کی کسی نے کوشش اور جرأت نہیں کی کیونکہ سب جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی حقیقت کو جاننا انسانوں کے بس کی بات نہیں۔ توحید باری تعالیٰ کے بارے میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا نقطۂ نظر ایک تھا اور اس بارے میں ان کی کوئی دوسری رائے نہیں تھی۔خوارج کے ظہور کی ابتدا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے ہی سے ہو چکی تھی اور آپ نے اس پورے فتنے کے حوالے سے قبل ازوقت پیش گوئی بھی کر دی تھی۔یہ لوگ بھی اپنے باطل نظریات کے باوجود ذات باری تعالیٰ اور صفات باری تعالیٰ کے بارے میں صحابہ سے مختلف رائے نہیں رکھتے تھے۔ان میں عقیدے کی خرابی یہ تھی کہ وہ کبیرہ گناہ کے مرتکب کو اسلام سے خارج تصور کرتے تھے۔سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ان سے مناظرہ بھی کیا لیکن بہت سے لوگ اپنے اس نظریے سے باز نہ آئے۔ توحید کے بارے میں پہلی خرابی اس وقت پیدا ہوئی جب لوگوں نے تقدیر کے مسائل پر نہ صرف بحث شروع کی بلکہ گمراہ کن تاویلات کی راہ پر چل پڑے۔انھوں نے کہا کہ انسان آزاد اور بااختیار ہے۔وہ جو کچھ کرتا ہے اپنی مرضی سے کرتا ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کے مقدر میں کچھ نہیں لکھا۔سب سے پہلے جس شخص نے مسئلہ تقدیر پر کلام کیا اس کا نام معبد بن خالد جُہَنی تھا۔یہ سیدنا حسن بصری رحمہ اللہ کا ہم نشین تھا۔ معبد نے یہ عقیدہ ابویونس نامی ایک عجمی آدمی سے لیا تھا۔بصرہ میں عبدالملک بن مروان کے دور میں جب
Flag Counter