Maktaba Wahhabi

136 - 315
دوسرے مقام پر یوں فرمایا: ﴿قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ أَلَّا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ﴾ ’’کہہ دیجیے: تم آؤ، میں پڑھ کر سناتا ہوں جو کچھ تمھارے رب نے تم پر حرام کیا ہے، (اس نے تاکیدی حکم دیا ہے) کہ تم اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ خوب نیکی کرو۔‘‘[1] تمام حقوق میں سب سے پہلا اور لازمی حق یہ ہے کہ اللہ وحدہ لاشریک پر غیر متزلزل اور پختہ ایمان لایا جائے۔یہی امر ہے جو دین کی اصل بنیاد ہے۔اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکے کی تیرہ سالہ زندگی میں لوگوں کو صرف توحید کی دعوت دیتے اور شرک سے روکتے رہے۔گویا تیرہ سال تک منصب نبوت کی ادائیگی کا محور و مرکز عقیدۂ توحید کا اقرار و استحکام اور معبودان باطل کا انکار رہا۔ علاوہ ازیں قرآن کریم میں بھی اس موضوع کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے اور مختلف انداز سے اسے واضح کیا اور نکھارا گیا ہے۔اسی طرح ہر نماز میں، چاہے وہ فرض ہو یا نفل، نمازی اللہ کی بارگاہ میں کھڑے ہو کر یہ اقرار و اعتراف کرتا ہے: ﴿ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ﴾ ’’(اے ہمارے رب!) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔‘‘[2] یہ اقرار و اعتراف، توحید الوہیت یا توحید عبادت ہی کا اقرار ہے اور یہی توحید ہر انسان کی فطرت میں بھی رکھی گئی ہے، یعنی اس کا ادراک و اعتراف ہر انسان کی فطرت میں داخل ہے۔اسی بات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح بیان فرمایا ہے: ((مَا مِنْ مَّوْلُودٍ إِلَّا یُولَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَأَبَوَاہُ یُھَوِّدَانِہِ وَیُنَصِّرَانِہِ وَیُمَجِّسَانِہِ كَمَا تُنْتَجُ الْبَھِیمَۃُ بَھِیمَۃً جَمْعَاءَ ھَلْ تُحِسُّونَ فِیھَا مِنْ جَدْعَاءَ)) ’’ہر بچے کی پیدائش فطرت (اسلام اور توحید) پر ہوتی ہے، پھر اس کے ماں باپ اسے (اپنے ماحول
Flag Counter