Maktaba Wahhabi

123 - 315
روایت ولید بن مسلم کی تدلیس کی بنا پر ضعیف ہے۔ہاں، بعض علماء نے اس حدیث کو صحیح قرار دینے کی کوشش کی ہے، انھوں نے کہا ہے کہ یہ ایک بہت بڑی بات ہے کہ یہ اسمائے گرامی جنت میں لے جانے والے ہیں، لہٰذا یہ نہیں ہوسکتا تھا کہ صحابہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان اسماء کی تعیین کے بارے میں سوال نہ کرتے، لہٰذامعلوم ہوا کہ ان کی تعیین نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی طرف سے ہے لیکن اس کا جواب یہ دیا جاسکتا ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ نے اس کے بارے میں پوچھا ہو اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اسماء کی تعیین فرمائی ہوکیونکہ اگر معاملہ اسی طرح ہوتا تو ان ننانوے اسمائے حسنیٰ کا علم اظہر من الشمس ہوتا اور یہ اسماء صحیحین وغیرہ میں ضرور منقول ہوتے کیونکہ ان کی شدید ضرورت تھی مگر یہ ضعیف سندوں کے ساتھ خاصے بڑے اختلاف کے ساتھ منقول ہیں۔معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بلیغ حکمت کے پیش نظر انھیں بیان نہیں فرمایا اور وہ بلیغ حکمت یہ تھی کہ لوگ یہ اسمائے گرامی خود کتاب اللہ و سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے تلاش کریں تاکہ معلوم ہو کہ کسے ان کا شوق ہے اور کسے شوق نہیں ہے۔ انھیں شمار کرنے کے یہ معنی نہیں کہ انھیں کاغذ کے پرزوں پر لکھا جائے اورپھر باربار پڑھا جائے تاکہ حفظ ہوجائیں بلکہ اس کے معنی یہ ہیں: ٭ ان کے الفاظ کو یاد کیا جائے۔٭ ان کے معنی و مفہوم کو سمجھا جائے۔٭ ان کے تقاضے کے مطابق اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے۔اس کی دوصورتیں ہیں: 1. ان اسمائے گرامی کے ذریعے سے دعا مانگی جائے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَادْعُوهُ بِهَا ﴾’’تم اسے اس کے ناموں سے پکارا کرو۔‘‘[1] یعنی ان اسمائے عالیہ کو حصول مقصد کے لیے وسیلہ بنا لیا جائے، اس کی صورت یہ ہے کہ اپنے مقصد کے مناسبِ حال ان میں سے کسی اسم پاک کو منتخب کریں اور اس کے وسیلے سے دعا کریں، مثلاً: مغفرت کی دعا کے لیے یہ کہیں: ((یَا غَفُورُ!اِغْفِرْلِی)) ’’اے بخشنے والے!مجھے معاف فرما دے۔‘‘ یہ مناسب نہیں کہ آپ یوں کہیں: ((یَا شَدِیدَ الْعِقَابِ!اِغْفِرْلِی)) ’’اے سخت عذاب دینے والے!مجھے معاف کر دے۔‘‘ کیونکہ اس صورت میں اس صفت کے ساتھ یہی کہنا مناسب ہوگا کہ ((أَجِرْنِی مِنْ عِقَابِكَ))
Flag Counter