تمام اعمال کی قبولیت کا دارومدار توحید ہی پر ہے۔شرک سے مشرک کے نیک اعمال بھی برباد ہو جاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَلَوْ أَشْرَكُوا لَحَبِطَ عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴾
’’اگر یہ (پیغمبر) شرک کرتے تو ان کے اعمال ضرور برباد ہو جاتے۔‘‘[1]
جس نے توحید کو اپنا لیا وہ کامیاب ہو گیا۔حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
((یَا ابْنَ آدَمَ!إِنَّكَ لَوْ أَتَیْتَنِی بِقُرَابِ الْأَرْضِ خَطَایَا، ثُمَّ لَقِیتَنِی لَا تُشْرِكُ بِی شَیْئًا لَأَتَیْتُكَ بِقُرَابِھَا مَغْفِرَۃً))
’’اے آدم کے بیٹے!اگر تو میرے پاس پوری زمین کے بھراؤ کے برابر گناہ کر کے آئے اور مجھ سے اس حال میں ملے کہ تو نے میرے ساتھ شر ک نہ کیا ہو تو میں تیرے پاس زمین بھر کر مغفرت اور بخشش لے کر آؤں گا۔‘‘[2]
یہ بنیادی اصول اس قدر اہم ہے کہ تمام انبیائے کرام علیہم السلام بھی شرک سے اللہ کی پناہ مانگتے تھے۔قرآن بتاتا ہے کہ سب موحدوں کے امام، بتوں کو توڑنے والے، بیت اللہ کے بانی، جلیل القدر پیغمبر سیدنا ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے دربار میں گڑگڑاتے ہوئے عرض کرتے تھے:
﴿ وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنَامَ ﴾
’’(اے میرے رب!) مجھے اور میری اولاد کوبتوں کی عبادت سے دور رکھنا۔‘‘[3]
|