Maktaba Wahhabi

189 - 702
باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کو خطاوار تو ٹھہراتے ہیں البتہ وہ ایک دوسرے کی تکفیر نہیں کرتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں سے ایک اس بات کو کفر سمجھتا ہے جو کفر ہوتی نہیں اور بسا اوقات وہ بات کفر بھی ہوتی ہے کیونکہ ان میں ایک پر تو یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ اس میں اللہ کے رسول کی تکذیب اور خالق باری تعالیٰ کو سب و شتم ہے جبکہ دوسرے پر یہ بات ابھی تک واضح نہیں ہوئی ہوتی۔ اس لیے ضروری نہیں کہ جس پر کفر کی دلیل واضح ہو، اس کے کافر کہنے سے دوسرا بھی ضرور ہی کافر کہے جسے ابھی تک کفر کی دلیل واضح نہیں ہوئی۔ جن باتوں کو لوگ ٹھہراتے ہیں ، ان میں ان کے متعدد طرق ہیں ، چنانچہ کوئی یہ کہتا ہے کہ کفر یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جانی گئی ضروریاتِ دین کی تکذیب کا نام ہے۔ پھر ضروریات دین اور علم ضروری کی تعیین میں بھی لوگ باہم مختلف و متفرق ہیں ۔ پھر کسی کے نزدیک کفر یہ رب تعالیٰ سے جہل کا نام ہے۔ پھر کبھی صفت سے جہالت کو موصوف سے جہالت کے جیسا قرار دیا جاتا ہے اور کبھی ان دونوں باتوں کو جدا جدا بھی رکھتے ہیں ۔ پھر خود صفات کی نفی اور اثبات کے اعتبار سے بھی لوگ باہم مختلف ہیں ۔ پھر بعض کے نزدیک کفر کی کوئی حد نہیں ۔ لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی کسی بھی بات کی تکذیب ان کے نزدیک کفر ہے جیسے اللہ پر اور روزِ آخرت پر ایمان لانے کا انکار اور تکذیب کفر ہے۔ کیونکہ ان دونوں باتوں پر ایمان لانے کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے۔ ان کے علاوہ تکفیر کے اور بھی متعدد طرق ہیں ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کفر کا تعلق رسالت سے بھی ہے۔ لہٰذا رسول کی تکذیب کفر ہے۔ اسی طرح حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کے نزدیک بلکہ جملہ ائمۂ دین کے نزدیک باطن میں رسول کے سچا ہونے کا علم و اعتقاد رکھنے کے باوجود ظاہر میں اس پر سب و شتم کرنا، اس کے ساتھ بغض و عداوت رکھنا بھی کفر ہے۔ سوائے جہمیہ اور اس کے ہم نواؤں کے جیسے صالحی اور اشعری وغیرہ کہ ان کے نزدیک یہ ظاہر میں تو کفر ہے لیکن باطن میں کفر نہیں سوائے اس صورت کے جو جہل کو مستلزم ہو۔ وہ یوں کہ دل میں رب تعالیٰ کی تصدیق کا ایک ذرہ بھی باقی نہ رہا ہو اور یہ قول بھی اس اعتقاد پر مبنی ہے کہ ایمان فی القلب میں تفاضل نہیں اور دل میں ایمان کا بعض نہیں ہوتا۔ بے شک یہ قول نصوصِ صریحہ کے اور واقع کے بھی خلاف ہے، جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ۔ [مرتکب کبیرہ اور بدعتی کی توبہ ] غرض اس مقام پر ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اہل بدعت میں سے جو بھی توبہ تائب ہوتا ہے، رب تعالیٰ بھی اسے معاف فرما دیتے ہیں ۔ پھر جس گناہ کا تعلق اللہ اور اس کے رسول سے ہو، وہ خالص اللہ کا حق ہے۔ لہٰذا اس باب میں واجب ہے کہ آدمی رب تعالیٰ کی خوشنودی اور رضا کا طالب ہو اور رسول کی اتباع اس کے پیش نظر ہو، تاکہ اس کا عمل بالکل درست اور خالص ہو۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ قَالُوْا لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّۃَ اِلَّا مَنْ کَانَ ہُوْدًا اَوْ نَصٰرٰی تِلْکَ اَمَانِیُّہُمْ قُلْ ہَاتُوْا بُرْہَانَکُمْ
Flag Counter