Maktaba Wahhabi

237 - 702
ہے چلاتا ہے اور اگر یہ لوگ شریک بناتے تو یقیناً ان سے ضائع ہو جاتا جو کچھ وہ کیا کرتے تھے۔ یہی وہ لوگ ہیں جنھیں ہم نے کتاب اور حکم اور نبوت عطا کی، پھر اگر یہ لوگ ان باتوں کا انکار کریں تو ہم نے ان کے لیے ایسے لوگ مقرر کیے ہیں جو کسی صورت ان کا انکار کرنے والے نہیں ۔ یہی وہ لوگ ہیں جنھیں اللہ نے ہدایت دی، سو تو ان کی ہدایت کی پیروی کر۔‘‘ ان آیات میں رب تعالیٰ نے اس بات کی خبر دی ہے کہ وہ اس ہدایت کے ساتھ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے خاص کرتا ہے اور بتلایا کہ یہی وہ لوگ ہیں جنھیں رب تعالیٰ نے ہدایت سے سرفراز فرمایا۔ پس معلوم ہوا کہ رب تعالیٰ اس ہدایت سے ہدایت پانے والے کو ہی خاص کرتا ہے ناکہ اسے جسے یہ ہدایت نہیں ملی اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہدایت یافتہ لوگ اس بات کے ساتھ خاص ہیں کہ رب تعالیٰ نے انھیں ہدایت دی ہے ناکہ وہ لوگ خاص ہیں جو ہدایت پر چلنے والے نہیں اور ہدایت جب بیان اور دعوت کے معنی میں ہو تو اس میں مومن اور کافردونوں برابر ہوتے ہیں ، جیسے رب تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَاَمَّا ثَمُوْدُ فَہَدَیْنَاہُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمَی عَلَی الْہُدَی﴾ (فصلت: ۱۷) اور ثمودکو ہم نے سیدھا راستہ دکھایا مگر انھوں نے ہدایت کے مقابلہ میں اندھا رہنے کو پسند کیا۔‘‘ اور جب یہ اس معنی میں ہو کہ اسے ہدایت یافتہ بنا دیا تو یہ صرف مومن کے ساتھ خاص ہوتی ہے اور یہی معنی اس ارشاد باری میں مطلوب ہے: ﴿اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمo﴾ (الفاتحۃ: ۶) ’’ہمیں سیدھے راستے پر چلا۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ہُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَo﴾ (البقرۃ: ۲) ’’بچنے والوں کے لیے سرا سر ہدایت ہے۔‘‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ کبھی تو ہدایت کہ جب وہ ذلالت و ارشاد کے معنی میں ہو تو بالقوۃ ہوتی ہے تب یہ مومن و کافر میں مشترک ہوتی ہے اور کبھی یہ بالفعل ہوتی ہے، تب یہ صرف مومن کے ساتھ خاص ہوتی ہے۔ جیسا کہ تم کہتے ہو: ’’میں نے اسے سکھایا تو وہ سیکھ گیا اور میں نے اسے سکھایا تو وہ نہ سیکھا۔‘‘ اسی طرح تمھارا یہ کہنا ہے: ’’میں نے اسے ہدایت دی تو اس نے ہدایت لے لی اور میں نے اسے ہدایت دی تو اس نے ہدایت نہیں لی۔‘‘ پس پہلی قسم کی ہدایت مومنوں کے ساتھ خاص ہے اور دوسری قسم کی ہدایت مشترک ہے۔ [ہدایت و گمراہی اور رب کی مشئیت ]: اور رب تعالیٰ کی تعلیم و ہدایت یہ بندوں کے ایک دوسرے کو تعلیم دینے کی طرح نہیں ہے۔ کیونکہ معلم کہتا ہے اور متعلّم ایسے اسباب کے ساتھ سیکھتا ہے جن پر معلم قادر نہیں ہوتا اور یہ رب تعالیٰ ہی ہے جو علم کو متعلمین کے دلوں میں ڈالتا ہے۔ اسی لیے تو رب تعالیٰ یہ بات دعا کر کے مانگی جاتی ہے:
Flag Counter