Maktaba Wahhabi

143 - 702
ہیں : عرب عہد جاہلیت میں بھی اور اسلام میں بھی تقدیر کا اقرار کرتے رہے ہیں ۔ لوگوں کا سوال اس بارے میں تھا جو اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنی طرف سے دین و شریعت اور اس حکم کے لحاظ سے احسان فرمایا ہے جسے وہ چاہتے ہیں اور پسند کرتے ہیں اور اس کے کرنے پر ثواب سے نوازتے ہیں ۔ [خطاء اور نسیان کا حکم ] ٭ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس بات کا علم تھا کہ جو چیز دین اور شریعت کے خلاف ہو؛ وہ انسان کے اپنے نفس اور شیطان کی طرف سے ہوتی ہے۔ اگرچہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کی قضاء و قدر سے ہوتی ہے؛ اوربھلے اس سے بھی ویسے ہی معافی مل سکتی ہے جیسے خطاء اور نسیان سے معافی مل سکتی ہے۔ ٭ خیر اوربھلائی کا بھول جانا شیطان کی طرف سے ہوتاہے؛ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ وَ اِمَّا یُنْسِیَنَّکَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْرٰی مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ﴾[الانعام۶۸] ’’ اور اگر کبھی شیطان تجھے ضرور ہی بھلا دے تو یا د آنے کے بعد ایسے ظالموں کے ساتھ مت بیٹھ ۔‘‘ اور حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھی خادم نے کہا تھا[ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ] ﴿ وَ مَآ اَنْسٰنِیْہُ اِلَّا الشَّیْطٰنُ اَنْ اَذْکُرَہٗ وَ اتَّخَذَ سَبِیْلَہٗ فِی الْبَحْرِ عَجَبًا﴾[الکہف ۶۳] ’’ اور مجھے وہ نہیں بھلایا مگر شیطان نے کہ میں اس کا ذکر کروں ؛ اس نے بڑی عجیب طرح سمندر میں راستہ بنالیا۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ فَاَنْسٰہُ الشَّیْطٰنُ ذِکْرَ رَبِّہٖ ﴾[یوسف ۴۲] ’’اور شیطان نے اپنے آقا کے پاس اسے یادکرنا بھلا دیا ۔‘‘ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام کے ساتھ وادی میں نماز کے وقت سوئے رہے۔تو آپ نے فرمایا: ’’اس وادی میں شیطان ہمارے پاس چلا آیا۔[1] پھر فرمایا: ’’ بیشک شیطان حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے پاس آیا؛ اور انہیں ایسے تھپکا جیسے بچے کو تھپکایا جاتا ہے حتی کہ وہ سو گیا۔‘‘[2]
Flag Counter