Maktaba Wahhabi

431 - 702
آپ کے خلفاء راشدین ان تینوں پر عمل کیا کرتے تھے۔ ان میں سے ہر ایک عمل کے لیے اس کا خاص مقام ضرورت اور مصلحت ہے۔ اورحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان تینوں چیزوں کو ایک پیرائے میں بند کرکے بیان کردیا ہے ۔ ٭ امام زہری نے عبیداللہ بن عبد اللہ سے نقل کیا ہیحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : مجھ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’اے ابن عباس ! اللہ کی قسم ! اس حکومت کے نظام کو چلانے کے لیے ایسے قوی انسان کی ضرورت ہوتی ہے جو سختی نہ کرے ؛ اور ایسے نرم دل کی ضرورت ہوتی ہے جو کمزوری نہ دیکھائے۔ ایسا سخی ہو جو فضول خرچی نہ کرے ‘اور مال کو ایسے روک کر رکھنے والاہو کہ اس میں بخل بھی نہ ہو ۔‘‘ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں : اللہ کی قسم ! میں کسی انسان کو نہیں جانتا جو عمر کے علاوہ ان صفات کا حامل ہو۔ ٭ صالح بن کیسان نے ابن شہاب سے نقل کیا ہے وہ سالم سے اوروہ اپنے باپ سے نقل کرتے ہیں : جب آپ کے سامنے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا جاتا تو آپ فرماتے ؛ اللہ کے لیے ہی عمر رضی اللہ عنہ کی بھلائی ہے ۔ آپ بہت کم ہی کسی چیز کا خوف سے ذکر کرتے مگروہ حق ہوتی۔ فصل:....حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر زیادہ مہر سے روکنے کا الزام [اعتراض ]:شیعہ کا قول ہے:’’ عمر رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیتے ہوئے کہا، جو شخص کسی عورت کا زیادہ مہر مقرر کرے گا تو میں مہر کی رقم بیت المال میں داخل کر دوں گا ایک عورت نے کھڑے ہو کر کہا جو چیز اﷲنے ہمیں اپنی کتاب عزیز میں عطا کی ہے، آپ اس سے کیوں منع کر رہے ہیں ؟ ارشاد باری ہے:﴿وَاٰتَیْتُمْ اِحْدٰہُنَّ قِنْطَارًا﴾ عمر نے یہ سن کر کہا ’’ ہر شخص عمر سے بڑا فقیہ ہے۔‘‘ [جواب ]:ہم کہتے ہیں : یہی بات حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے کمال فضل ؛ دینداری اور تقویٰ کی دلیل ہے کہ جب حق آپ پر واضح ہو گیا تو آپ نے فی الفور کتاب عزیز کی طرف رجوع کیا اور ایک عورت کے قول سے بھی انحراف نہ کیا،اس کے لیے بھی تواضع اختیار کی۔اورآپ کسی ایک مسئلہ میں بھی کسی ادنی انسانی فضیلت کے بھی قائل تھے۔ افضل کے لیے یہ ضروری نہیں کہ مفضول اسے کسی بات پر بھی متنبہ نہ کر سکے، ہد ہد نے حضرت سلیمان علیہ السلام سے کہا تھا۔ ﴿ اَحُطْتُّ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِہٖ وَجِئْتُکَ مِنْ سَبَاٍِ بِنَبَاٍِ یَقِیْنٍ ﴾ (النمل:۲۲) ’’مجھے وہ باتیں معلوم ہیں جو آپ نہیں جانتے؛ اور میں آپ کے پاس ملک سباء سے ایک سچی خبر لے کر آیا ہوں ۔‘‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام خضر کے پاس علم حاصل کرنے کی غرض سے گئے تھے؛ اور ان سے کہا تھا: ﴿ ہَلْ اَتَّبِعُکَ عَلٰٓی اَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا﴾ [الکہف۶۶] ’’کیا میں آپ کی تابعداری کروں ؟ کہ آپ مجھے وہ نیک علم کو سکھا دیں جو آپ کو سکھایا گیا ہے۔‘‘
Flag Counter