Maktaba Wahhabi

592 - 702
احوال نقل کرنے کی جنس سے تعلق رکھتا ہے۔ اور یہی حال مراسلت وغیرہ کا بھی ہوتا ہے۔ ان میں صحیح چیزیں بھی ہوتی ہیں اور ضعیف بھی۔ ٭ جب معاملہ ایسے ہی ہے تو ہم کہتے ہیں : صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے جو فضائل و مناقب اور محاسن کتاب و سنت اور نقل متواتر سے ثابت ہیں ‘ ان کو منقطع اور محرّف اور ناقابل حجت روایات سے رد نہیں کیا جاسکتا ۔ اس لیے کہ یہ اصول ہے کہ یقین کو شک کی بنیاد پر رد نہیں کیا جاسکتا ۔ اور ہمیں اس بات پر یقین ہے جس پر کتاب و سنت اور ہم سے پہلے سلف صالحین کا اجماع اور منقولات متواترہ کے ساتھ ساتھ عقل بھی دلالت کرتی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد سب سے افضل ترین مخلوق ہیں ۔ پس ان پرمشکوک اور قابل ِ قدح امور کی بنیادپرشک نہیں کیا جاسکتا۔تو پھر وہ امور ان کی شان میں کیسے قابل قدح ہوسکتے ہیں جن کا باطل ہونا سب کو معلوم ہے۔ رافضی کا دعوی : شہرستانی کا تعصب: ٭ رافضی کا یہ کہنا کہ: ’’ شہرستانی امامیہ مذہب کے خلاف سخت ترین تعصب رکھنے وا لوں میں سے تھا۔‘‘ ٭ [جواب:ہم کہتے ہیں ]:ایسا ہر گز نہیں تھا۔بلکہ وہ بہت ساری باتوں میں شیعہ مذہب کی طرف میلان رکھتا تھا۔ بلکہ کبھی کبھار ان میں سے اسماعیلیہ ملاحدہ کا کلام نقل کرتا اور اس کی توجیہ کرتاتھا۔ یہی وجہ ہے کہ بعض لوگوں نے اس پر اسماعیلی ہونے کا الزام لگایا ہے۔اگرچہ حقیقت میں معاملہ ایسے نہیں تھا۔جن لوگوں نے اس پر یہ تہمت لگائی ہے؛ انہوں نے اپنے اس دعوی پر شہرستانی کے کلام اور اس کی سیرت سے کچھ شواہد بھی پیش کئے ہیں ۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ بعض وجوہات کی بنا پر شیعہ کے ساتھ تھا اوربعض وجوہات کی بناپر امام اشعری رحمہ اللہ کے ساتھ تھا۔ ٭ اس طرح کی باتیں بہت سارے واعظین اور متکلمین کے کلام میں آجاتی ہیں یہ لوگ صحیفہ علی بن حسین میں ماثور دعائیں مانگا کرتے تھے۔ حالانکہ ان میں سے اکثر دعائیں علی بن حسین رضی اللہ عنہ پرجھوٹ گھڑی گئی ہیں ۔ خلاصہ کلام ! شہرستانی کا شیعہ مذہب کی طرف میلان صاف ظاہر ہے۔بھلے وہ باطن میں بھی ایسا ہی تھا یا پھر صرف بطور مداہنت و لجاجت کے ایسا کرتا تھا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ کتاب ’’الملل والنحل‘‘اس نے ایک شیعہ رئیس کے لیے تصنیف کی تھی۔اس رئیس کے ہاں اسے ولایت دیوانیہ حاصل تھی۔ اور شہرستانی کا مقصد یہ تھا کہ اس کا دل نرم کیا جائے۔ ایسے ہی اس شیعہ رئیس کے لیے ایک اور کتاب ’’ المصارعۃ ‘‘ بھی تصنیف کی گئی ہے ؛ جس میں اس کے مابین اور ابن سینا کے مابین تقابل و نزاع کا بیان ہے۔ اس لیے کہ یہ مصنف خود شیعیت اور فلسفہ کی طرف مائل تھا۔ اس کا سب سے بہتر حال یہ ہوسکتا ہے کہ اگریہ خود اسماعیلی یا ملحد نہ بھی ہو تب بھی شیعہ ضرور ہوگا۔یہی وجہ ہے کہ اس کتاب میں واضح طور پر شیعہ مذہب کی طرف میلان ظاہر کیا گیاہے۔ ٭ اگرچہ اس کے علاوہ اس کی دیگر کتابوں میں امامیہ مذہب کو باطل ثابت کیا گیا ہے ؛ تو یہاں پر یہ واضح ہوجاتا ہے جس شیعہ رئیس کی خاطر یہ کتاب لکھی گئی ہے ‘ اس کی محبت حاصل کرنے کے لیے مداہنت سے کام لیا گیا ہے ۔
Flag Counter