Maktaba Wahhabi

630 - 702
رب کے پاس وہ کچھ ہے جو وہ چاہیں گے، یہی نیکی کرنے والوں کی جزا ہے۔تاکہ اللہ ان سے وہ بد ترین عمل دور کر دے جو انھوں نے کیے اور انھیں ان کا اجر ان بہترین اعمال کے مطابق دے جو وہ کیا کرتے تھے۔‘‘ اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ اُوْلٰٓئِکَ الَّذِیْنَ نَتَقَبَّلُ عَنْہُمْ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا وَنَتَجاوَزُ عَنْ سَیِّاٰتِہِمْ فِیْ اَصْحٰبِ الْجَنَّۃِ وَعْدَ الصِّدْقِ الَّذِیْ کَانُوْا یُوْعَدُوْنَ﴾ [الاحقافِ:16] ’’یہی توہیں کہ ہم ان سے اچھے عمل قبول کرتے ہیں جو انھوں نے کیے اور ان کی برائیوں سے در گزر کرتے ہیں ، جنت والوں میں ،سچے وعدے کے مطابق جو ان سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔‘‘ [عبداللہ بن ابی سرح رضی اللہ عنہ کا واقعہ]: [اعتراض]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن ابی سرح رضی اللہ عنہ کو مباح الدم قرار دیا تھا مگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کو پناہ دی تھی۔اور پھر اسے مصر کا والی مقرر کردیا۔‘‘[شیعہ کا بیان ختم ہوا] [جواب]:ہم کہتے ہیں : اگر رافضی مصنف کی مراد یہ ہے کہ ابن ابی سرح رضی اللہ عنہ اس وقت تک مباح الدم ہی تھے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں مصر کا والی مقرر کردیا؛ جیسا کہ اس کے کلام سے ظاہری طورپرسمجھا جارہا ہے۔تو ایسی بات وہی انسان کہہ سکتا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور احوال سے بہت بڑا جاہل ہو ۔ فتح مکہ کے موقع پرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی ایک جماعت کیساتھ اسے مباح الدم قرار دیا۔مگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اسے لیکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے۔ اور کچھ مراجعت واصرار کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بیعت کردیا۔اور اس کا خون محفوظ ہوگیا ۔ اور اس کا شمار معصوم الدم مسلمانوں میں ہونے لگا؛ اس کے بھی وہی حقوق تھے جو باقی مسلمانوں کے تھے او راس پر بھی وہی واجبات تھے جو باقی لوگوں پر تھے۔ شروع میں یہ سب سے لوگوں سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دشمنی رکھتا تھا۔ پھر اس نے اسلام قبول کیا تو اچھا مسلمان ثابت ہوا۔ اور اس کا خون بھی اسی طرح مباح قراردیا گیا تھا جیسے دوسرے کچھ لوگوں کا خون ان کے سخت کفر یا سخت ارتداد کی وجہ سے مباح قراردیا تھا؛ جیسا کہ مقیس بن صبابہ کاخون۔ ٭ اصل واقعہ یہ ہے کہ ابن ابی سرح ہجرت و اسلام سے مشرف ہو کر مدینہ میں کتابت وحی پر مامور تھا۔ پھر مرتد ہو کر مشرکین سے جا ملا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف افتراء پردازی کرنے لگا۔جب مکہ فتح ہوا تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اسے بارگاہ نبوی میں پیش کیا تو آپ نے منہ پھیر لیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:’’اے اﷲ کے رسول! عبد اﷲکو بیعت فرمائیے۔ مگر آپ نے جواب نہ دیا۔ اور دو دفعہ یا تین دفعہ اعراض فرمایا؛ پھر بیعت کرلیا اور فرمایا : ’’ تم میں کوئی دانش مند آدمی نہیں تھا جو مجھے دیکھتا اور جب میں نے اعراض کیا تھا اس وقت اس کا کام تمام کردیتا۔‘‘ ایک انصاری نے عرض کیا:’’ آپ نے
Flag Counter