Maktaba Wahhabi

173 - 702
دوسرا جواب : بیشک ہم نے ایسا قیاس نہیں کیا جس میں فرع کے حکم کو اصل سے نکال لایا ہو۔ بیشک جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے؛ وہ شرعی ادلہ سے ثابت ہے جن کی موجودگی میں کسی قیاس کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ جیسا کہ اس سے پہلے بھی بیان کیا جاچکا ہے۔ لیکن ہم نے قیاس اس لیے ذکر کیا ہے تاکہ انسان کے تصور میں وہ صورت آجائے جو اس سلسلہ میں شریعت میں موجود ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ مسئلہ کو سمجھانے اور اس کا تصور بیان کرنے کے لیے مثالیں بیان کرتے ہیں ۔ یہ بیان اس لیے نہیں ہوتا کہ یہ کوئی شرعی دلیل ہے۔ اس قیاس سے مراد یہ ہے کہ نماز کو اس کے وقت کے بعد ادا کرنا؛ جب کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تاخیر کو حرام ٹھہرایا ہے؛ وہ ان عبادات کی ادائیگی کی منزلت پر ہے۔یہاں پر مقصود ایک حکم کی تمثیل سے دوسرا حکم بیان کرنا ہے۔ تو اس سے پتہ چلا یہاں مقصود یہ ہے کہ:نماز اب باقی نہیں رہی جو قبول تو مگر صحیح نہ ہو۔ جیسے یہ عبادت نہ ہی قبول ہوتی ہے اور نہ ہی صحیح ہوتی ہے۔ بیشک جہلاء میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو یہ گمان کرتے ہیں : اس سے مراد نماز کے معاملہ کی توہین ؍یا اس میں نرمی ہے۔ اور یہ کہ جس کی نماز رہ جائے اس سے قضاء ساقط ہو جاتی ہے۔ تو ایسے بیوقوف لوگ نماز چھوڑنے کے داعی بن جاتے ہیں ۔ یہ بات کوئی مسلمان نہیں کہہ سکتا۔ بلکہ جس کسی نے یہ کہا ہے کہ: جس نے نماز چھوڑ دی اس پر کوئی گناہ نہیں ہے؛ وہ کافر اور مرتد ہے؛ اس سے توبہ کروائی جائے گی۔ اگر وہ توبہ کر لے تو ٹھیک ؛ ورنہ اسے قتل کردیا جائے گا۔ لیکن جان بوجھ نماز چھوڑنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے جان بوجھ رمضان کے روزے چھوڑنا۔ اس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے۔ اور مسلمانوں کے تمام گروہوں کا اجماع ہے: جو کوئی یہ کہے کہ میں دن کی نماز رات کو پڑھوں گا؛ وہ بالکل ویسے ہی ہے جیسے کوئی کہے میں رمضان کے روزے شوال میں رکھوں گا۔ اگروہ اپنے لیے ایسا کرنے کو جائز سمجھتا ہے ؛ تو وہ بالکل ویسے ہی ہے جیسے کوئی رمضان کے روزوں کو شوال تک مؤخر کرنا جائز سمجھتا ہے۔ اور دونوں سے باتفاق علماء توبہ کروائی جائے گی۔ اگروہ توبہ کرلیں ؛اورنماز و روزہ کی بروقت ادائیگی کے واجب ہونے کا عقیدہ رکھیں توٹھیک ؛ ورنہ ان دونوں کو قتل کردیا جائے گا۔ [بعض فاسد اعتقادات اور ان کے اسباب ] بہت سارے جہلاء اور عوام الناس کسی معمولی سے کام کی وجہ سے بھی ان نمازوں میں رات تک تاخیر کرنے کو جائز سمجھتے ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ رات میں ان کا نماز پڑھنا؛ کام کے ساتھ ساتھ دن میں نماز پڑہنے سے زیادہ بہتر ہے۔ یہ نظریہ باتفاق مسلمین باطل ہے۔ بلکہ ایسا تصور کرنا کفر ہے۔ اور بعض لوگ صرف اس کے کمال افعال کی صورت میں ہی بروقت ادائیگی کو جائز سمجھتے ہیں ۔ اور اگر کوئی کمالِ افعال کے ساتھ تاخیر سے پڑھے تو یہ زیادہ اچھا ہے۔ حالانکہ یہ باطل ہے۔ بلکہ اس کے کفر ہونے پر تمام علماء کا اتفاق ہے۔ ان فاسد اعتقادات کے سبب غیر معذور کے لیے قضاء تجویز کی گئی ہے۔ کسی کہنے والے کا یہ کہنا کہ: ایسی نماز صحیح اور
Flag Counter