Maktaba Wahhabi

695 - 702
کردیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مدت کے اندر اندر جو لوگ منصب امامت پر فائز ہوں گے وہ خلیفہ راشد اورہدایت یافتہ ہوں گے۔ ۷۔ ساتواں طریقہ یہ ہے کہ آپ کسی شخص کو چند باتوں کے ساتھ مختص کردیں جو اس بات کی مقتضی ہوں کہ یہ سب پر فائق ہے، یہ صفت صرف ابوبکر رضی اللہ عنہ میں موجود تھی۔ [نواں جواب ]: کسی متعین پر ترک نص رسول کے لیے موزوں تر ہے۔ اس لیے کہ اگر نص معصوم کے حق میں ہو تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شخص معصوم نہیں ۔اور اگر غیر معصوم کے حق میں ہو تو اس کی ہر بات کے واجب الاطاعت ہونے میں بعض اوقات نص سے احتجاج کرنا پڑتا ہے۔ حالانکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اس بات کا امکان باقی نہیں رہتا کہ آپ سے مراجعت کرکے اس امام و خلیفہ کی بات کو مسترد کردیاجائے یا اسے معزول کیا جائے۔اس لیے منصوص علیہ خلیفہ کا نہ ہونا اس کے ہونے سے بہتر تھا۔یہ اس کے برعکس ہے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی میں نائب یا والی مقرر کریں ۔اس لیے کہ جس شخص کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی میں تعینات کریں ؛ اگر اس سے کوئی گناہ ہوجائے یا غلطی ہوجائے توممکن ہے کہ آپ اسے غلطی پر متنبہ اور اسے اس منصب سے معزول بھی کر سکتے تھے۔جب کہ موت کے بعد ایسا کرنا ممکن نہیں ۔ اور امت کے لیے بھی اس امام یا نائب کو معزول کرناممکن نہیں رہے گا ؛ اس لیے کہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعین کیا ہے ۔ پس کسی متعین شخص پر نص کا نہ ہونا مسلمانوں کے لیے زیادہ بہتر اور مصلحت پر مبنی تھا۔اور ایسے ہی ہوا۔ اگر رسول اپنے بعد کسی کو بصراحت اس بات کے لیے مقررفرمائیں کہ ہم اس سے دین اخذ کریں ؛ جیسے رافضی کہتے ہیں ؛ تو اﷲکی حجت باطل ٹھہرے گی اور رسول کے سوا دوسرا کوئی شخص اس کا اہل بھی نہیں ہو سکتا کیوں کہ معصوم صرف رسول ہی ہوتا ہے دوسرا کوئی شخص معصوم نہیں ہوتا۔ جوشخص ان باتوں پر اور دوسرے امور پر غور کرے گا اسے علم ہوجائے گا کہ جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اختیار کیا تھا وہ زیادہ کامل واکمل امور تھے۔ [جزئیات کی تنصیص ممکن نہیں ]: [دسواں جواب ]: جزئیات کی تنصیص ممکن نہیں اور کلیات قبل ازیں منصوص ہیں ۔ اگر رسول کسی مخصوص آدمی کواس منصب پر مقرر کردیتے اور کلیات کی تنصیص میں اس کی اطاعت کا حکم صادر کرتے تو یہ باطل ہوتا۔ اور اگر جزئیات میں اس کی اطاعت کا حکم دیتے؛ خواہ وہ جزئیات کلیات کے موافق ہوں یا مخالف تو یہ بھی باطل ہوتا۔ اور اگر جزئیات میں اس کی اطاعت اس صورت میں ضروری ٹھہرائی جائے جب وہ کلیات سے ہم آہنگ ہوں ؛ تو ہر والی ایسا حکم صادر کرتا ہے۔ اگر رسول صلی اللہ علیہ وسلم تصریحاً بھی کسی متعین شخص کو اس منصب پر مقرر کردیتے ؛تو جو اس کے بعدجو امام یا خلیفہ بنتا؛ اس کے ساتھ کوئی نص نہ ہوتی۔ تو کوئی بھی خیال کرنے والا یہ خیال کرتا کہ اس کی اطاعت امام سابق کی طرح نہیں کی جاسکتی، کیوں کہ پہلے امام کی اطاعت نص کی روشنی میں واجب تھی جب کہ دوسرے امام کی امامت کسی نص قطعی سے
Flag Counter