Maktaba Wahhabi

456 - 702
کے درست ہونے پر دلالت کرتی ہیں ؛ بیشک نہ کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خمس کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا؛ اور نہ ہی آپ کے خلفائے راشدین نے ۔ اور نہ ہی کبھی یتیموں کو ایسے دیا کرتے تھے جیسے مساکین کو دیا کرتے تھے۔ بلکہ ان میں سے ہر ایک ضرورت مند کو اس کی ضرورت کے مطابق دیا کرتے تھے۔ کبھی ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ مساکین غنی اور مالدار یتیموں سے زیادہ ہوں ۔ مدینہ طیبہ میں مالدار یتیم موجود تھے۔ پس یہ حضرات ان کے فقرآء و مساکین کے مابین مساوات نہیں کرتے تھے۔ بلکہ ہمیں نہیں معلوم ہوسکا کہ انہیں اس مال میں سے کچھ دیا ہو؛ بخلاف ضرورت مندوں کے ۔ اس موضوع پر احادیث بہت زیادہ ہیں ؛ جن کے بیان کا یہ موقع نہیں ہے۔ فصل:....قیاس کا اعتراض [اعتراض]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ظن و قیاس کے مطابق فتوی دیا کرتے تھے۔‘‘ [جواب]:ہم کہتے ہیں :’’ رائے اور قیاس حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہی خاص نہیں ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی نسبت زیادہ قیاس کرنے والے تھے۔ایسے ہی حضرت ابو بکر و عثمان ؛زید؛ابن مسعود اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی قیاس کیا کرتے تھے ‘ او راپنی رائے کے مطابق فتوی دیا کرتے تھے۔سنن ابی داؤد اور دوسری کتب میں حضرت حسن سے روایت ہے : قیس بن عبادہ رحمہ اللہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا تھا: ’’ یہ جو آپ سفر کرتے ہیں (حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے لڑائی کے لیے)تو اس کے بارے میں ہمیں بتلائیں کہ کیا یہ اس کا کوئی عہد ہے جو آپ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لیا تھا؟ یا آپ اپنی رائے سے ایسا کرتے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کوئی عہد نہیں لیا لیکن یہ تو میری ذاتی رائے ہے۔‘‘[سنن ابوداؤد : ح 1264] یہ تو ثابت شدہ امر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس جنگ جمل اور صفین کے حق میں کوئی ایک روایت بھی نہیں تھی؛ جیسا کہ خوارج کے قتال کے لیے آپ کے پاس روایات موجود تھیں ۔بلکہ ان جنگوں کے لیے جانا بھی ان کی رائے پر مبنی تھا۔ اس بارے میں صرف ان لوگوں کے پاس کچھ روایات تھیں جو جنگوں میں شریک ہی نہیں ہوئے۔ اس لیے کہ ان کے پاس جو روایات تھیں ان میں فتنوں کے دور میں گھروں میں بیٹھ جانے [اور فتنہ سے دور رہنے ] کا حکم تھا۔ وہ روایت جس میں عہد توڑنے والوں ‘اور نافرمانی کرنے والوں اورجماعت سے نکلنے والوں کو قتل کرنے کا حکم ہے ‘ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث نہیں ہے ‘ بلکہ جھوٹ گھڑ کر آپ کی طرف منسوب کیا گیا ہے ۔ یہ ایک مسلمہ بات ہے کہ قیاس و رائے اگر قابل مذمت نہیں ہیں تو اس کا قائل کسی حال میں بھی قابل ملامت نہیں ۔ اور اگررائے و اجتہاد ایک مذموم چیز ہے تو اس رائے سے اور مذموم تر رائے کیا ہو گی جس کی بنا پر ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کا خون ( جنگ جمل و صفین میں ) بہایا گیا؛ اور اس سے مسلمانوں کو کوئی دینی و دنیوی فائدہ بھی نہ پہنچا۔ بلکہ شرّ
Flag Counter