Maktaba Wahhabi

563 - 702
اے امیر المؤمنین مجھ پر حد قائم کرکے مجھے پاک کیجیے ۔ حضرت ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ اور غامدیہ عورت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اور انہیں گناہ سے پاک کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ پس جب کو ئی انسان اللہ کا ولی ہو تو اس بات میں کوئی چیز مانع نہیں ہوسکتی کہ کوئی چیز اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کاکفارہ بنا دے ۔ ولی امر کی تادیب سے بھی یہ مقصود حاصل ہوجاتا ہے اور دوسرے امور سے بھی۔ اگر یہ کہا جائے کہ ان صحابہ کرام سے جو کچھ ہوا تھا ؛ اس میں وہ مجتہد اور معذور تھے ؛ توحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں بالأولی کہا جاسکتا ہے کہ آپ بھی انہیں ادب سیکھانے میں مجتہد اورمعذور تھے۔ اس لیے کہ آپ امام اور خلیفہ ہونے کی وجہ سے رعیت کی تادیب و اصلاح پر مأمور تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خواہشات ِ نفس سے بہت زیادہ دور تھے۔ اور ان حضرات کو ادب سکھانے میں عدل و انصاف اور علم کے زیادہ قریب تھے ۔ رضی اللہ عنہم ۔ اگر کوئی انسان حضرت علی رضی اللہ عنہ پر قدح کرے کہ آپ نے جناب حضرت زبیر حضرت طلحہ اورحضرت معاویہ رضی اللہ عنہم سے جنگ کی ۔ تواس کے جواب میں کہا جائے گا : حضرت علی رضی اللہ عنہ علم و عدل میں ان لوگوں کی نسبت اولی اور افضل ہیں جنہوں نے آپ سے جنگ کی۔ ایسے ہر گز جائز نہیں ہے کہ آپ سے جنگ کرنے والوں کو تو عادل کہا جائے اور آپ کو ظالم کہا جائے ۔ بالکل اسی طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے حدود قائم کرنے کا مسئلہ بھی ہے۔ آپ ان لوگوں کی نسبت علم و عدل کے زیادہ قریب اور ان سے افضل تھے۔ اگرحضرت علی رضی اللہ عنہ پر تنقید کرنے والوں سے آپ کا دفاع واجب ہوتا ہے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر تنقید کرنے والوں سے آپ کا دفاع بالاولی واجب ہوتا ہے ۔ [حکم بن العاص کی جلاوطنی کی حقیقت]: [اعتراض]: شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان رضی اللہ عنہ کے چچا حَکَم بن العاص اور ان کے بیٹے کو مدینہ سے نکال دیا تھا۔حکم اور اس کا بیٹا عہد رسالت مآب میں اور عہد ِصدیقی و فاروقی میں مدینہ بدر ہی رہے۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے پھر واپس مدینہ میں بلا لیا۔ اور مروان کو اپنا مشیر اور کاتب بنالیا ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿لَا تَجِدُ قَوْمًا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَادَّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ﴾ [المجادلۃ ۲۲] ’’اللہ تعالیٰ پر اورروزِ قیامت پر ایمان رکھنے والوں کو آپ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے محبت رکھنے والے ہرگز نہ پائیں گے ۔‘‘[شیعہ کا بیان ختم ہوا] [جواب]: حکم ابن العاص فتح مکہ کے موقع پر اسلام لانے والوں میں سے ایک ہے ۔ اس وقت اسلام قبول کرنے والے تقریباً دو ہزار افراد تھے۔تب تک مروان ابھی چھوٹا بچہ تھا۔اس کا شمار ابن زبیراور مسور بن مخرمہ کے معاصرین میں ہوتا ہے۔فتح مکہ کے موقع پر یہ سن ِ تمیز کو پہنچ چکا تھا یعنی سات سال یا اس سے کم و بیش عمر تھی۔مروان کا کوئی ایسا گناہ نہیں
Flag Counter