Maktaba Wahhabi

46 - 702
﴿قَالُوْا سَمِعْنَا فَتًی یَّذْکُرُہُمْ یُقَالُ لَہٗٓ اِبْرٰہِیْمُ﴾ [الأنبیاء ۶۰] ’’بولے ہم نے ایک نوجوان کو ان کا تذکرہ کرتے ہوئے سنا تھا جسے ابراہیم علیہ السلام کہا جاتا ہے ۔‘‘ اور نوجوان کے بھائی سے مراد علی رضی اللہ عنہ ہیں ۔مراد جبریل کا قول ہے ۔حضرت جبریل جنگ بدر کے دن خوش و خرم آسمان کی جانب چڑھتے جارہے تھے اور کہہ رہے تھے:’’ لَا سَیْفَ اِلَّا ذُوالْفَقَارِ وَ لَا فَتٰی اِلَّا عَلِیٌّ۔‘‘(تلوار ہے تو ذوالفقار اور نوجوان ہے تو علی) ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :’’میں نے ابو ذر رضی اللہ عنہ کو کعبہ کے پردوں سے چمٹے ہوئے دیکھا وہ کہہ رہے تھے:’’ جومجھے پہچاننا چاہتا ہو، وہ پہچان لے، میں ابو ذر ہوں ۔ اگر تم نماز و روزہ کی پابندی کرتے کرتے سوکھ جاؤ اور کانٹے کی طرح ہو جاؤ تو تمھیں اس وقت تک اس سے کچھ حاصل نہ ہو گا، جب تک علی رضی اللہ عنہ سے محبت نہ کرو۔‘‘[شیعہ مصنف کے دلائل ختم ہوئے] [جواب]: شیعہ کے دلائل پر تنقید و تبصرہ: شیعہ کے پیش کردہ دلائل کا جواب یہ ہے کہ: (۱) شوری کے دن عامر بن واثلہ کا جو ذکر مصنف نے کیا ہے؛یہ روایت باتفاق محدثین کذب ہے۔[1] حضرت علی رضی اللہ عنہ نے شوری کے دن ایسی کوئی بات نہیں کہی تھی؛ اور نہ ہی اس کے مشابہ کوئی بات کہی ۔ بلکہ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا تھا:’’ اگر میں آپ کو امیر مقرر کردوں تو کیا آپ انصاف کریں گے؟‘‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا:’’ہاں ‘‘ عبد الرحمن نے پھر کہا:’’ اگر میں عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت کرلوں تو کیا آپ ان کی اطاعت کریں گے؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’ہاں ۔‘‘حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے بھی یونہی کہا۔ پھر تین دن تک مسلمانوں سے مشورہ کرتے رہے۔[2] صحیحین میں ہے ۔ یہ الفاظ صحیح بخاری کے ہیں ۔حضرت عمرو بن میمون سے روایت ہے‘ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’ ان کے دفن کیے جانے کے بعد وہ لوگ جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی نظر میں خلافت کے مستحق تھے جمع ہوئے، حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس معاملہ کو صرف تین شخصوں پر چھوڑ دو۔ جس پر زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے کہا کہ: میں نے اپنا حق حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سپرد کیا۔ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ: میں نے اپنا حق حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو سونپ دیا ۔
Flag Counter