Maktaba Wahhabi

500 - 702
نہ ڈھایا؟ جیسے سلاطین و ملوک کی عادت ہے کہ جس کا خوف انھیں دامن گیر رہتا ہو وہ اپنے عروج کے زمانہ میں اس پر کاری ضرب لگاتے ہیں ۔یا اسے قید کردیتے ہیں ؛ یاپھر اسے خفیہ طریقہ سے قتل کرادیتے ہیں ۔یا اعلانیہ قتل کردیتے ہیں ۔ اگر ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہماواقعی حضرت علی رضی اللہ عنہ پر مظالم توڑنا چاہتے تھے تو پھر انہوں نے ایسا کیوں نہیں کیا؟ آپ کو کسی حیلہ سے قتل کیوں نہیں کیا یا پھر انہیں قید میں کیوں نہ ڈالا؟ اگر یہ لوگ ایسا کرنا چاہتے تو یہ بات ان کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد وجود نص کے باوجود (جیسا کہ شیعہ کا خیال ہے) حضرت علی رضی اللہ عنہ کو محروم خلافت کرنے سے بھی آسان تر تھی۔ ایسے بھی ہوسکتا تھاکہ آپ کو کسی لشکر پر امیر بنا کر بھیج دیا جاتا ؛ اور کسی فوجی کوکہہ دیا جاتا کہ وہ آپ کو قتل کردے۔ یا زہر دے دے ؛ یہ ساری باتیں ممکن تھیں ۔ خلاصہ کلام ! والی کا اپنے اس حریف سے دفاع کرنا زیادہ ضروری ہوتاہے جو ولایت میں جھگڑا کررہا ہوں یا جو کہہ رہا ہوکہ وہ خلافت کا زیادہ حقدار ہے۔ اس کے لیے قتل ؛ قید ؛ ایذا رسانی اور ملک بدری کا کوئی بھی حیلہ اختیار کیا جاسکتا ہے ۔ اس کے عین برعکس یہ دونوں حضرات حضرت علی رضی اللہ عنہ کا انتہائی درجہ کا احترام کرتے ؛آپ کو ہر موقع پر مقدم رکھتے ۔ یہی نہیں سارے بنی ہاشم کودوسرے لوگوں پر عطیات میں ترجیح دیتے ۔آپ کو مرتبہ ؛ عزت و احترام ؛ محبت ؛ دوستی ؛ تعریف و توصیف اور مدح وثنا میں باقی لوگوں پر مقدم رکھتے ۔اور آپ کو ایسے ہی فضیلت دیتے جیسے اللہ تعالیٰ نے آپ کوان لوگوں پر فضیلت دی ہے جو آپ جیسے نہیں تھے۔کبھی ان حضرات سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں یا پھر بنی ہاشم کی شان ایک سخت کلمہ تک نہیں سنا گیا۔ [بلکہ ان سے بہترین سلوک روا رکھتے تھے۔ انہوں نے نہ کبھی ان کے ظلم سے فریاد کی۔نہ بنی ہاشم کے کسی آدمی نے ظلم کی شکایت کی ۔] یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ : جب دل میں کسی کے خلاف دشمنی ہو تواس سے انسان اپنے دشمن کو تکلیف پہنچانا چاہتا ہے ۔ او رجب انسان قدرت بھی رکھتا ہو‘ اور قدرت کے ساتھ پختہ ارادہ بھی ہو ‘ تو اس سے واجب ہوتا ہے کہ انسان جس چیزکا پختہ ارادہ کرچکا ہو‘ اسے کر گزرے۔ اگر ان حضرات کا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو تکلیف دینے کا ارادہ ہوتا تو وہ سامنے نظر آجاتا ؛ جب کہ معاملہ اس کے برعکس ہے ؛ یہ لوگ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اپنی محبت اوردوستی کا دم بھرتے ہیں ۔[ تو پھر اس کہانی کی کیا حیثیت ؟ ] ایسے ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہماسے الفت و محبت کا سلوک کرتے اور ظاہراً و باطناً ان کی تعظیم بجا لاتے رہے۔اور انہیں باقی ساری امت پر ترجیح دیتے تھے۔اس سے ان کے احوال وتعلقات کا بھی پتہ چلتا ہے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی ان کی شان میں کبھی ایک لفظ تک برانہیں کہا؛ اور نہ ہی کبھی یہ دعوی کیا کہ وہ ان دونوں سے بڑھ کر خلافت کے حق دار ہیں ۔ [رافضی مذہب کو کہاں پذیرائی ہوسکتی ہے ؟]: یہ ایک مشہور بات ہے اور ہر تاریخ دان اس سے آگاہ ہے اور اگر کوئی شخص روافض کے کذب و بہتان کا دل دادہ ہو
Flag Counter