Maktaba Wahhabi

605 - 702
جماعت تھی جنہیں اگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ حکم دیتے کہ اپنے والدین اور بیٹوں کو قتل کر ڈالو ‘تو وہ ضرور ایسا کر گزرتے۔ ٭ اللہ تعالیٰ نے سورت برأت نازل فرمائی ؛جس میں منافقین سے پردہ چاک کیا ؛اور مسلمانوں کو ان کی پہچان کروائی۔ یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورعام مسلمانوں کے نزدیک پست ‘ ذلیل اورسرنگوں و حقیرتھے۔ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ترین اشخاص میں سے تھے۔ اور آپ کے نزدیک لوگوں میں سب سے زیادہ عزت مند‘ محبوب ‘ اور خاص الخواص تھے۔ دن اوررات میں ہر وقت باقی تمام لوگوں سے بڑھ کر آپ کی صحبت میں رہنے والے تھے۔ اور سب سے بڑھ کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موافقت اور محبت رکھنے والے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل اور اللہ کے دین کی سر بلندی کے لیے سب سے بڑھ کر حریص تھے۔ تو پھر کوئی مسلمان کیسے اس بات کو جائز سمجھ سکتا ہے کہ : یہ دونوں حضرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک منافقین کی جنس سے تعلق رکھتے تھے۔منافقین کے بارے میں صحابہ کو علم تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بے رخی برتتے تھے؛ اور آپ کے نزدیک سب سے بڑھ کر ذلیل یہی لوگ تھے۔سورت برأت نازل ہونے کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان کے قریب بھی نہیں پھٹکتے تھے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کا تو یہ فرمان ہے: ﴿لَئِنْ لَّمْ یَنْتَہِ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ وَّ الْمُرْجِفُوْنَ فِی الْمَدِیْنَۃِ لَنُغْرِیَنَّکَ بِہِمْ ثُمَّ لَا یُجَاوِرُوْنَکَ فِیْہَآ اِلَّا قَلِیْلًا٭ مَّلْعُوْنِیْنَ اَیْنَمَا ثُقِفُوْٓا اُخِذُوْا وَ قُتِّلُوْاتَقْتِیْلًا﴾ [الأحزاب۶۰۔۶۱] ’’اگر منافق لوگ اور وہ جن کے دلوں میں مرض ہے اور مدینہ میں دہشت انگیز افواہیں پھیلانے والے باز نہ آئے تو ہم آپ کو ان کے خلاف اٹھا کھڑا کریں گے۔ پھر وہ تھوڑی ہی مدت آپ کے پڑوس میں رہ سکیں گے۔یہ لوگ ملعون ہیں جہاں بھی یہ پائے جائیں انہیں پکڑ کر بری طرح قتل کر دیاجائے گا۔‘‘ ان آیات کے نزول کے بعد یہ لوگ نفاق کااظہار کرنے سے باز آگئے۔جبکہ حضرت ابوبکرو عمر رضی اللہ عنہمارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک انتہائی محبوب اورسب سے بڑھ کر عزت والے تھے۔ [رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات میں اختلاف]: [اشکال]:رافضی نے کہاہے: ’’ تیسرا اختلاف : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موت میں واقع ہو ا۔‘‘ [جواب]:اس میں کوئی شک نہیں کہ شروع میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا معاملہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر مخفی رہا۔پھر بعد میں اس کا اقرار کرلیا۔اور یہ اعتراف کرلیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کاانکار کرنے میں خطاء پر تھے۔ پس یہ اختلاف ختم ہوگیا ۔ یہ حدیث کے الفاظ ویسے نہیں ہیں جس طرح شہرستانی نے ذکر کئے ہیں ۔ صحیح بخاری و مسلم میں [ابوسلمہ کا بیان ہے کہ] حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ باہر نکلے اورحضرت عمر رضی اللہ عنہ لوگوں سے گفتگو کر رہے
Flag Counter