Maktaba Wahhabi

626 - 702
بات سے آگاہ کیا تھا۔ اسی لیے حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے آپ کی بیعت کرلی۔ ٭ بعض حضرات نے جو ذکر کیا ہے کہ : حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر یہ شرط لگائی کہ آپ شیخین کی سیرت پر عمل پیرا رہیں گے تو آپ نے اس کاجواب نہ دیا۔‘‘ ایسا یا تو عاجزی و کمزوری کی وجہ سے تھا کہ ان جیسے حضرات کی سیرت پر عمل کیسے ممکن ہے ‘ یا پھر اس لیے کہ آپ یہ خیال کرتے تھے کہ : تقلید واجب یا جائز نہیں ۔ اور جب حضرت علی رضی اللہ عنہ پر یہ شرط لگائی تو آپ نے اس بات کو قبول کرلیا ۔اس کی یا تو اس بات کا امکان تھا کہ آپ ان حضرات کی سیرت پر عمل کرسکتے تھے : یا پھر آپ تقلید کو جائز سمجھتے تھے۔‘‘یہ ایک باطل نقل ہے ؛ اس کی کوئی ثابت شدہ اصل نہیں ۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ خودساختہ روایت اس صحیح اورثابت شدہ روایت کے خلاف ہے؛جس میں ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ تین دن اور تین رات تک بغیر آرام کئے لوگوں سے مشورہ کرنے میں مشغول رہے۔ آپ تمام مسلمانوں سے مشورہ کررہے تھے۔ اور یہ بات کھل کر آپ کے سامنے آرہی تھے کہ لوگ کسی کو بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے برابر نہیں سمجھتے۔ بلکہ لوگ دوسروں سے بڑھ کر آپ کو خلافت و ولایت کا حق دار سمجھتے تھے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے ان حضرات پر سوائے عدل کے کوئی شرط نہیں لگائی ۔ آپ نے ان دونوں حضرات سے کہا تھا: ’’ تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں ! اگر میں نے ولایت تمہیں سونپ دی تو تم عدل و انصاف کرو گے ۔ اور اگر تم پر امیر مقرر کردیا توتم اس کی بات سنو گے اور اطاعت کرو گے۔‘‘تو ہر ایک نے یہی جواب دیا: ’’ہاں ہم ضرور ایسا کریں گے ۔‘‘ ٭ پس متولی پر عدل کی شرط لگانا اور متولیٰ علیہ پر سمع واطاعت کی شرط لگانا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام میں سے ہے جس پر کتاب و سنت دلالت کرتے ہیں ۔ [صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اختلافات]: [اعتراض]:شیعہ مصنف کا یہ قول کہ ’’ صحابہ میں لاتعداد اختلافات پیدا ہو گئے تھے۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حَکَم بن امیہ کو واپس مدینہ بلا لیا۔حالانکہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھگادیا تھا۔ اور اسے طرید رسول کہا کرتے تھے۔آپ نے حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہماکے پاس ان کی خلافت کے ایام اس کے لیے سفارش کی تھی؛ مگر انہوں نے یہ بات نہیں مانی۔بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے اس کی جگہ سے چالیس فرسخ تک یمن کے اندر بھگا دیاتھا۔‘‘[شیعہ کا بیان ختم ہوا] [جواب]:ہم کہتے ہیں کہ: اگر ایسی معمولی باتوں کا نام اختلاف ہے تو خلیفہ جو حکم بھی صادر کرے گا اور دوسرا کوئی اس کی خلاف ورزی کرے تو اس کا نام اختلاف رکھا جائے گا؛ اس طرح اختلاف ایک غیر محدود چیز ٹھہرے گا۔ جس کا کوئی ٹھکانا ہی نہیں ۔اس سے پہلے آپ کی جانب سے وہ مسائل ذکر کئے گئے ہیں جن میں اختلاف واقع ہوا تھا جیسا کہ : وراثت اور طلاق کے مسائل اور دیگر امور؛جو کہ صحیح بھی ہیں اور فائدہ مند بھی۔بلاشبہ ان امور میں اختلاف صحیح روایات
Flag Counter