Maktaba Wahhabi

447 - 702
قطعی نصوص تلاش کرو۔‘‘ اس لیے کہ آپ رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ ضرورت کے لیے اجتہاد کیا جا سکتا ہے۔ اور متعین مسئلہ میں بھی آپ اجتہاد کرنے کے لیے مجبور تھے۔اور آپ کو یہ بات نا پسند تھی کہ بغیر اجتہاد کے کسی دوسرے کی تقلید کریں ۔ تو اسی لیے آپ نے پہلے کتاب اللہ سے تلاش کرنے کا حکم دیا ۔ علمائے کرام کا ان کتابوں کی فروخت کے متعلق اختلاف ہے جن میں علم بالرائے ہو؛ کیاان کی خرید و فروخت جائز ہے ؟ اس میں دو قول ہیں ۔ فصل:....حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر اقرباء پروری کا الزام [اعتراض ]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ حضرت عمر رضی اللہ عنہ مال تقسیم کرنے میں بعض لوگوں کو ترجیح دیتے تھے، حالانکہ اﷲتعالیٰ نے مساوات کوواجب قرار دیا ہے۔‘‘ [جواب]:[پہلی بات] حضرت عمر رضی اللہ عنہ مال غنیمت خود تقسیم نہیں کیا کرتے تھے۔بلکہ یہ ان امراء لشکر کا کام تھا جو غنیمت حاصل کرتے تھے ۔ امیر جیش خمس (مال غنیمت کا پانچواں حصہ) فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بھیج دیا کرتا تھا۔ جیسا کہ آپ کے علاوہ باقی خلفاء کو بھیجا جاتا تھا۔ پس آپ اس خمس کو اس کے اہل لوگوں میں تقسیم کیا کرتے تھے۔ [دوسری بات]:....نہ ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ اورنہ ہی کسی دوسرے نے یہ نہیں کہا کہ غنیمت میں تفضیل واجب ہے۔ لیکن علماء کرام رحمہم اللہ کے مابین اختلاف ہے کہ کیا امام کے لیے کسی مصلحت کے پیش نظر کسی مجاہد سے مال غنیمت کی تقسیم میں ترجیحی سلوک روا رکھنا جائز ہے یا نہیں ؟ جب اس سے زیادہ فائدہ کا حصول واضح ہو۔ اس میں علماء کرام رحمہم اللہ کے دو قول ہیں ۔ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے دو روایتیں منقول ہیں ۔ پہلا قول:....امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اسے جائز سمجھتے ہیں ۔ اسکی دلیل یہ ہیکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کو جاتے وقت خمس نکال کر مال غنیمت کا ۴؍۱ حصہ بعض مجاہدین کو انعام کے طور پر دے دیا تھا، واپسی کے وقت خمس نکال کر ۳؍۱ انعام کے طور پر بانٹ دیا۔[1] مجاہدین کو یہ ترجیح مال خمس کے چار حصوں میں دی جاسکتی ہے۔صحیح مسلم میں ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کو غزوہ الغابہ میں دشمن کے قتل ‘ اسے ڈرانے اور غنیمت کے حاصل کرنے میں غیر معمولی کارنامہ سر انجام دینے کے صلہ میں ایک پیدل اور ایک سوار کا حصہ دیا تھا حالانکہ سلمہ رضی اللہ عنہ پا پیادہ تھے۔[2] دوسرا قول:....امام مالک و شافعی رحمہم اللہ فرماتے ہیں : ایسا کرنا جائز نہیں ۔امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں :انعام خمس میں سے دے سکتے ہیں ۔ جب کہ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : انعام خمس کے ۵؍۱ [یعنی کل مال غنیمت کے ۲۵؍۱]میں
Flag Counter