Maktaba Wahhabi

53 - 702
غزوہ تبوک سے پہلے جتنے بھی لوگوں کو نائب بنایا گیا ؛ ان کی نیابت غزوہ تبوک پر نائب بنائے جانے سے زیادہ کامل و اکمل تھی۔اگر یہ تشبیہ اصل استخلاف میں ہے تو یہ تمام لوگ وہی نسبت رکھتے تھے جو حضرت ہارون کو حضرت موسیٰ علیہ ا لسلام سے تھی۔ اگر یہ کہا جائے کہ تبوک میں دور کا سفر تھا ۔‘‘ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا: لیکن اس موقع پر مدینہ طیبہ اور اس کے گردونواح میں امن و امان تھا۔ کوئی ایسا دشمن باقی نہیں رہا تھا جس کا خوف ہو۔اس لیے کہ یہ تمام لوگ اسلام لا چکے تھے۔اور جو مسلمان نہیں تھے وہ وہاں سے جاچکے تھے۔ جب کہ تبوک کے علاوہ دوسرے غزوات میں مدینہ کے گردونواح میں دشمنان موجود ہوا کرتے تھے جن کاخوف رہتا تھا۔اس وقت نائب کو مزید محنتوں و کوششوں کی ضرورت ہوا کرتی تھی۔ جب کہ تبوک کے موقع پر ایسی کسی چیز کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ فصل: ....روایت : لَا فَتٰی اِلَّا عَلِّیٌ [شبہ]:حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن فرمایا تھا: ’’ میں خود نوجوان، نوجوان کابیٹا اور نوجوان(حضرت علی) کا بھائی ہوں ۔‘‘میں نوجوان ہوں یعنی عرب کے نوجوان بہادروں میں سے ہوں ۔اور نوجوان کا بیٹا ہوں ‘ اس سے مراد حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿قَالُوْا سَمِعْنَا فَتًی یَّذْکُرُہُمْ یُقَالُ لَہٗٓ اِبْرٰہِیْمُ﴾ [الأنبیاء ۶۰] ’’بولے ہم نے ایک نوجوان کو ان کا تذکرہ کرتے ہوئے سنا تھا جسے ابراہیم علیہ السلام کہا جاتا ہے ۔‘‘ اور نوجوان کے بھائی سے مراد علی رضی اللہ عنہ ہیں ۔یہی جبریل کے قول سے مراد ہے ۔حضرت جبریل جنگ بدر کے دن خوش و خرم آسمان کی جانب چڑھے اور وہ کہہ رہے تھے:’’ لَا سَیْفَ اِلَّا ذُوالْفَقَارِ وَ لَا فَتٰی اِلَّا عَلِیٌّ۔‘‘(تلوار ہے تو ذوالفقار اور نوجوان ہے تو علی)۔[انتہی کلام الرافضی] [جواب] : سابقہ روایات کی طرح یہ روایت بھی کذب اور من گھڑت ہے۔اس روایت کے جھوٹ ہونے پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے۔اسکی سند کے علاوہ بھی کئی ایک وجوہات کی بنا پر اس کا جھوٹ ہونا معلوم ہوتا ہے: [1] (۱) ’’اَلْفَتٰی‘‘ کا لفظ کتاب و سنت اور لغت عرب میں اسماء مدح و ذم میں سے نہیں ۔ بلکہ ’’الشَّابّ‘‘(جوان) اور ’’اَلْکَہْل‘‘ (ادھیڑ عمر کا ) کی طرح مطلق اسم ہے۔ مشرکین کا قول﴿قَالُوْا سَمِعْنَا فَتًی یَّذْکُرُہُمْ یُقَالُ لَہٗٓ اِبْرٰہِیْم ﴾ یہ
Flag Counter