Maktaba Wahhabi

268 - 702
غیرموجود ہے اور نہ حرام ہی ہے۔‘‘ لیکن درست یہ ہے کہ لفظ الخُلَّۃ سے مشتق ہے ناکہ اَلْخَلَّۃ سے۔ البتہ یہ معنی دوسرے معنی کو مستلزم ہے، کیونکہ سیدنا خلیل علیہ السلام کی رب تعالیٰ سے محبت کا کمال، یہ عبودیت اور افتقار کی محبت ہے اور یہ رب کی اپنے بندے سے محبت کی طرح نہیں ہے کہ وہ استغنا اور احسان کی محبت ہوتی ہے۔ اسی لیے رب تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَ قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّ لَمْ یَکُنْ لَّہٗ شَرِیْکٌ فِی الْمُلْکِ وَ لَمْ یَکُنْ لَّہٗ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَ کَبِّرْہُ تَکْبِیْرًاo﴾ (الإسراء: ۱۱۱) ’’اور کہہ دے سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے نہ کوئی اولاد بنائی ہے اور نہ بادشاہی میں اس کاکوئی شریک ہے اور نہ عاجز ہوجانے کی وجہ سے کوئی اس کا مدد گار ہے اور اس کی بڑائی بیان کر، خوب بڑائی بیان کرنا۔‘‘ پس رب اپنے بندے کا عاجزی کی بنا پر دوست نہیں ہوتا جیسا کہ مخلوق ایک دوسرے کی دوست ہوتی ہے۔ بلکہ رب تعالیٰ اپنے بندے کا اس لیے دوست ہوتا ہے تاکہ اس کے ساتھ احسان کرے۔ [ولی کا معنی:] الولی: یہ ولایت سے مشتق ہے اور ولایت یہ عداوت کی ضد ہے اور ولایت کی اصل محبت ہے اور عداوت کی اصل بغض ہے۔ لہٰذا ولی کو اس ولی سے مشتق ماننا جس کا معنی قرب ہے، تو یہ ولی کے معنی کا ایک جز ہو گا۔ کیونکہ ولی ولی کے قریب ہوتا ہے جبکہ دشمن دشمن سے دور ہوتا ہے۔ تو جب خلت یہ پورے دل میں محبت کے کمال کو مستلزم تھی تو جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ مناسب نہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مخلوق میں سے کسی کو خلیل بناتے۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا: اگر میں زمین والوں میں سے کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر کو خلیل بناتا لیکن تمھارا (یہ) ساتھی (یعنی خود حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے خلیل ہیں ۔ اسی لیے رب تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا اس بات سے امتحان لیا کہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کر کے دکھائیں اور صحیح قول ہے مطابق ذبیح سیدنا ابراہیم کے بڑے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام ہیں جیسا کہ سورۂ ’’صافات‘‘ اور دوسری سورتیں اس بات پر دلالت کتری ہیں کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے رب تعالیٰ سے اس بات کی دعا مانگی تھی کہ وہ آپ کو ایک نیک بیٹا عطا فرمائے تو رب تعالیٰ نے آپ کو اس بات کی خوش خبری دی کہ وہ آپ کو ایک نیک اور حلیم بیٹا عطا فرمائے گا، پس جب وہ بڑے ہو کر آپ کے ساتھ چلنے اور دوڑنے لگے تو رب تعالیٰ نے ان کو ذبح کر دینے کا حکم ارشاد فرمایا تاکہ آپ کے دل میں کسی بھی مخلوق کی ایسی محبت باقی نہ رہے جو رب تعالیٰ کی محبت کے مزاحم ہو۔ کیونکہ رب تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے ان کے پہلونٹھے بیٹے کی قربانی مانگی تھی۔ تورات میں بھی اسی طرح ارشاد ہے: ’’اپنے اکلوتے بچے کو ذبح کر۔‘‘ ایک اور نسخہ میں ’’پہلونٹھا‘‘ کا لفظ بھی آتا
Flag Counter