Maktaba Wahhabi

365 - 702
معاذ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں واپس تشریف لائے۔ فصل:....حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر جہالت کا الزام؛ اور اس کا ردّ [اعتراض] : شیعہ مصنف کا قول ہے: ’’ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے چور کا بایاں ہاتھ کاٹ ڈالا ۔انھیں اتنا بھی معلوم نہ تھا کہ چوری کی سزا میں دایاں ہاتھ کاٹا جاتا ہے۔‘‘ [جواب] : ہم کہتے ہیں کہ: اس سے زیادہ جھوٹی بات اور کیا ہو گی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی کو یہ بات معلوم نہ ہو۔ اس بات کا بھی احتمال ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اسے جائز تصور کرتے ہوں اس لیے کہ قرآن میں صراحتاً دائیں ہاتھ کی تصریح نہیں ہے۔ البتہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قراء ت میں یہ تصریح مذکور ہے؛ اسکے الفاظ یہ ہیں :﴿فَاقْطَعُوْا اَیْمَانَہُمَا﴾ ’’پس ان کے دائیں ہاتھ کاٹ ڈالو۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تعامل بھی یہی رہا ہے۔ مگر اس کی کیا دلیل کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے چور کا بائیاں ہاتھ قطع کیا تھا۔ اور اس کی اسناد کہاں ہیں ؟ ہمارے پا س علماء آثار کی تصانیف موجود ہیں مگر یہ بات کسی میں بھی مذکور نہیں ۔ اختلافی مسائل کے بارے میں جو کتب تحریر کی گئی ہیں ان میں بھی اس روایت کا کوئی نشان نہیں ملتا۔ حالانکہ سب علماء حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی عظمت و فضیلت کے قائل ہیں ۔ فصل:....حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور آگ سے جلانے کاواقعہ [اعتراض] : رافضی قلم کار لکھتا ہے:’’ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فجاء ہ سُلَمی[1]کو زندہ جلا دیا تھا، حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آگ سے جلانے سے منع کیا ہے۔‘‘ [جواب]:ہم کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا زنادقہ کو نذر آتش کر دینا حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے واقعہ سے زیادہ مشہور و معروف ہے ۔روایات صحیحہ میں مذکور ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں غالی شیعہ اور زنادقہ کی ایک جماعت کو پیش کیا گیا تو آپ نے انھیں جلا دیا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو جب اس بات کا پتہ چلا تو فرمایا:’’ اگر علی رضی اللہ عنہ کی جگہ میں ہوتا تو ہر گز یوں نہ کرتا، اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو عذاب الٰہی میں مبتلا کرنے سے منع فرمایا ہے بلکہ میں انھیں قتل کردیتا، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’’ جو اپنے دین کو بدل ڈالے اسے قتل کردو۔‘‘[2]
Flag Counter