Maktaba Wahhabi

128 - 702
جب حضرت علی بن حسین رحمہ اللہ سے کوئی روایت صحیح سند کے ساتھ ثابت ہوجائے تو ان کے امثال کا نمونہ ومقتدائی بھی موجود ہے جیسے قاسم بن محمد اور سالم بن عبد اللہ وغیرہ رحمہم اللہ ۔ جیسا کہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کامعاملہ سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ تھا۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ﴾ [النساء ۵۹] ’’ اگر کسی معاملہ میں تمہارااختلاف ہوجائے تو اسے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹا دو۔‘‘ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ متنازعہ فیہ امور کو فیصلہ کے لیے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹایا جائے۔ رافضی قرآن مجید کو حفظ کرنے کا اہتمام نہیں کرتے۔اور نہ ہی اس کے معانی اور تفسیر کو جانتے ہیں ۔ اور نہ ہی اس کے معانی و مفاہیم سے استدلال کرنے کا طریقہ جانتے ہیں ۔ایسے ہی یہ لوگ احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی کوئی اہتمام نہیں کرتے۔ اورنہ ہی انہیں صحیح اور ضعیف حدیث کی کوئی معرفت ہوتی ہے۔ احادیث کے معانی و مفاہیم سے بے بہرہ ہوتے ہیں ۔ آثار صحابہ و تابعین کا کوئی اہتمام نہیں کیا جاتا کہ ان کے مسلک اور ماخذ کا پتہ چل سکے؛ اور اختلاف کے وقت آیات قرآنیہ اور احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق فیصلہ کے لیے پیش کیا جائے۔ بلکہ ان کا سارا سرمایہ وہ روایات ہیں جنہیں اہل بیت کی طرف منسوب کرکے نقل کیا جاتاہے۔ اثبات شریعت میں شیعہ کے اصول : اس بارے میں شیعہ کے تین بنیادی اصول ہیں : ۱۔ ائمہ میں سے ہر ایک امام معصوم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی منزلت پر ہے۔امام معصوم حق کے علاوہ کچھ بھی نہیں کہہ سکتا ۔ اور جو کچھ وہ کہتا ہے ‘ اس میں اس کی مخالفت کرنا کسی طرح بھی جائزنہیں ۔اور جس معاملہ میں کوئی دوسرا امام کے ساتھ اختلاف کرے تو اسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھی نہیں لوٹایا جائے گا۔ ۲۔ ائمہ میں سے کوئی ایک جو بھی بات کہتا ہے ؛ اس کے بارے میں یہ معلوم ہے کہ وہ کہنا چاہتا ہے : جو میں کہتا ہوں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کررہا ہوں ۔افسوس کہ اگر یہ لوگ اس بارے میں تابعین جیسے حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہ کی مراسیل پر ہی انحصار کرلیتے۔ بلکہ وہ ان لوگوں کی روایات لیتے ہیں جو بہت متأخر ہیں جیسے حسن عسکری کے ماننے والے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان ائمہ میں سے جو کوئی بھی کوئی بات کہتا ہے ؛ حقیقت میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمودہ ہوتی ہے۔ جس انسان کو ادنی سی بھی عقل ہو ؛وہ جانتا ہے کہ عسکریین کی وہی اہمیت ہے جو اس دور کے باقی ہاشمیوں کی ہے۔ان کے پاس کوئی ایسا علم نہیں ہے جس کی وجہ سے باقی لوگوں سے امتیازی حیثیت رکھتے ہوں ۔اور باقی اہل علم اس کے محتاج ہوں ۔ اورنہ ہی اہل علم ان سے کوئی روایت نقل کیا کرتے تھے جیساکہ وہ اپنے دور کے باقی علماء سے نقل کرتے رہتے تھے۔یا پھر جیسے حضرت علی بن حسین رحمہ اللہ اور ان کے بیٹے ابو جعفر اور پوتے محمد بن جعفر کے
Flag Counter