Maktaba Wahhabi

164 - 702
یہ جائز نہیں کہ وہ اس کے وقت سے تاخیر کرے۔ اگر متروک عمل کا وقت مؤکد ہو؛ تو پھر اس کے بعد اس کی ادائیگی نہیں ہوگی۔کیونکہ وقت کے بعد اس کی تلافی ممکن نہیں رہی۔ پس بیشک نجاست کے ساتھ نماز پڑھنا؛ یا ننگے نماز پڑھنا؛ اس نماز سے بہتر ہے؛ جو وقت گزرنے کے بعد بلا نجاست پڑھی جائے۔اگر ہم وقت کے بعد اسے نماز دہرانے کا حکم دیں گے ؛تو حقیقت میں ہم اسے اس کی پڑھی ہوئی نماز سے ناقص چیز کے بجالانے کا حکم دینے والے ہوں گے۔ جبکہ شارع اس بات کا حکم نہیں دیتا۔ اس کے برخلاف اگر کوئی ارکان؍فرائض میں سے کوئی رکن؍ فرض ترک کردے؛ تو وہ ویسے ہی ہے جس نے نماز پڑھی ہی نہ ہو؛ اسے وقت کے بعد بھی نماز پڑھنے کا حکم دیا جائے گا۔ [فرق کی اصل بنیاد] اس فرق کی بنیادیہ ہے کہ نماز کے واجبات میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جنہیں ارکان کہا جاتا ہے؛ جن کے بغیر نماز پوری نہیں ہوتی۔ اور کچھ چیزوں کو واجب کہا جاتا ہے؛ جن کے بغیر بھی نماز مکمل ہو جاتی ہے؛ بھلے اس کا سبب بھول و نسیان ہو؛یا مطلق طور پر کوئی سبب ہو۔ یہ جمہور کا قول ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ان چیزوں کو بھی واجب کہتے ہیں جن کے ترک کرنے پر کسی بھی طرح نماز کا اعادہ واجب نہیں ہوتا۔ پس جب اہل مدینہ اس میں ان امور کو واجب کہتے ہیں جن کے ترک کرنے اسی وقت اعادہ واجب ہوتا ہے؛ تو یہ شریعت کے زیادہ قریب تھا۔ امام احمد اور امام مالک رحمہما اللہ ان چیزوں کو واجب کہتے ہیں جن کے رہ جانے کی وجہ سے سجدہ سہو لازم آتا ہو؛ یا جن کا ازالہ سجدہ سہو سے ممکن ہو۔ پھر یہ واجب اگر جان بوجھ کر ترک کردیا جائے تو امام احمد رحمہ اللہ اپنے ظاہر مذہب میں اس کے اعادہ کو واجب کہتے ہیں ؛ جیسے اگر کوئی کسی رکن کو ترک کردے۔ جیسے اگر کوئی تشہد اول ترک کردے؛ یا دو یا دو سے زیادہ تکبیریں چھوڑ دے۔ یا سری کی جگہ جہری اور جہری کی جگہ سری قرأت کر دے۔ تمام لوگوں کا اتفاق ہے کہ حج کے واجبات میں سے کچھ ایسی چیزیں جن کے ترک کا ازالہ ہوسکتا ہے۔ اور کچھ ایسے اعمال ہیں جن کے ترک کرنے پر حج فوت ہو جاتا ہے۔ ان کا ترک پر ازالہ نہیں ہوسکتا۔ جیسے وقوف عرفہ ۔پس ایسے ہی معاملہ نماز کا بھی ہے۔ تیسرے گروہ کا کہنا ہے: جس چیز کی ادائیگی کا حکم اللہ تعالیٰ نے متعین وقت میں دیا ہو؛اسے بلا عذر ترک کیا گیا حتی کہ اس کا وقت ختم ہوگیا تو اس کام کے بعد میں کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ جیسے جمعہ ؛ اور وقوف عرفہ ؛ اور رمی جمرات ۔پس بیشک کوئی فعل عبادت اپنے وقت کے بعد تب تک مشروع نہیں ہوتا جب تک شارع اسے مشروع قرار دنہ دے۔ اور نہ ہی شارع کے حکم کے بغیر کوئی چیز واجب ہوتی ہے۔ اس پر مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ اگر کسی سے وقوف عرفہ رہ گیا؛ حتی کہ دوسرے دن کی فجر طلوع ہوگئی ؛ خواہ ایسا عذر کی وجہ سے ہوا ہو یا بلاعذر کے۔ تو وہ طلوع فجر کے بعد وقوف عرفہ نہیں کرے گا۔ اور ایسے ہی جو کوئی ایام منی میں جمرات کی رمی نہ کرسکے؛ تو وہ ایام منی کے بعد رمی نہیں کرے گا؛ بھلے اس کا عذر ہو یا نہ ہو۔ ایسے ہی جمعہ کی قضاء نہیں ہوتی؛ بھلے جمعہ عذر کی وجہ سے رہ گیا ہو یا بلاعذر۔اگر سارے کے سارے شہر والے جمعہ نہ
Flag Counter