Maktaba Wahhabi

602 - 702
٭ رافضی اپنی جہالت کی وجہ سے یہ گمان کرتے ہیں کہ شائد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ تحریرحضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے لیے لکھوانا چاہتے تھے۔اس پورے قصہ میں کوئی بھی بات ایسی نہیں ہے جو کسی بھی طرح اس موقف پر دلالت کرتی ہو۔ اور نہ ہی محدثین اور اہل علم کے ہاں کوئی ایسی معروف روایت پائی جاتی ہے جس میں یہ اشارہ ملتا ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا تھا۔ جیسا کہ صحیح احادیث میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دلائل پائے جاتے ہیں ۔لیکن اس کے باوجود یہ لوگ دعوی یہ کرتے ہیں کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی نص جلی و قطعی کی روشنی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت ثابت ہے کہ جس کے بعد اس کے نہ ماننے کا کوئی عذر باقی نہیں رہتا۔ ہم کہتے ہیں : اگر واقعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے کیا تھا تو پھر کوئی عہد نامہ لکھوانے کی ضرورت ہر گز نہ تھی۔ اور اگر معاملہ ایسے ہی تھا کہ اس وصیت کے سننے والے آپ کی اتباع نہیں کریں گے تو پھر یہ احتمال بھی مکمل طور پر موجود تھا کہ وہ لکھی ہوئی بات کو بھی نہیں مانیں گے۔تو پھر شیعہ گمان کے مطابق ایسا کوئی عہد نامہ لکھوا لینے میں کون سا فائدہ مضمر تھا؟ جیش اسامہ رضی اللہ عنہ کا من گھڑت قصہ: [اعتراض]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’دوسرا اختلاف: جو کہ آپ کی بیماری کی حالت میں پیش آیاکہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت کی حالت میں متعدد بار فرمایا: اسامہ رضی اللہ عنہ کا لشکر بھیج دو۔ اﷲاس پر لعنت کرے جو اس لشکر میں شامل نہ ہو۔‘‘ توبعض لوگ کہنے لگے: ہم پر آپ کا حکم ماننا واجب ہے۔ اوراسامہ رضی اللہ عنہ تیار ہو چکے ہیں ۔اورکچھ لوگ کہنے لگے: ’’ آپ کی بیماری بہت بڑھ گئی ہے ۔ اس حالت میں ہمارے دل آپ کی جدائی گوارہ نہیں کرتے ۔‘‘ [جواب]:اس قصہ کے جھوٹ ہونے پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرگز یہ نہیں فرمایا : ’’اﷲ اس پر لعنت کرے جو اس لشکر میں شامل نہ ہو۔‘‘ نہ ہی یہ بات کسی ثابت شدہ سند کے ساتھ آپ سے منقول ہے۔بلکہ کتب حدیث میں اس کی سرے سے کوئی سند ہی نہیں ۔اور اصحاب اسامہ کو ان کے ساتھ جانے سے کوئی روکنے والا بھی نہیں تھا ۔بلکہ خود حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے خروج سے توقف کیا تھا۔ اس لیے کہ آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا اندیشہ تھا ؛ اس لیے یوں عرض گزار ہوئے تھے: ’’ میں کیسے چلا جاؤں اور آپ کی یہ حالت ہے ؟ کیا میں قافلوں سے آپ کے متعلق پوچھتا رہوں ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو کچھ دن رکنے کی اجازت مرحمت فرما دی ۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جزم کے ساتھ آپ کو جانے کا حکم دیتے تو آپ کے لیے اطاعت کے علاوہ کوئی چارہ کار نہ تھا۔اور اگر اسامہ روانہ ہو جاتے تو آپ کے ساتھیوں میں سے کوئی ایک بھی پیچھے نہ رہتا۔یہ تمام لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اس غزوہ پر روانہ ہوئے اور ان میں سے کوئی ایک بھی پیچھے نہیں رہا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جیش اسامہ میں ہر گز نہیں تھے؛ اس پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے۔البتہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق روایات میں آتا ہے کہ آپ اس لشکر میں شامل تھے۔اورآپ بعد میں ان کے ساتھ جانا چاہتے تھے؛ مگر حضرت
Flag Counter