Maktaba Wahhabi

442 - 702
دن سنا ؛ورنہ ہم تو(چھری)کو مدیہ کہتے تھے۔‘‘ [1] یہ واقعہ بعض دوسرے صحابہ جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ وغیرہ نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے ہی سن رکھا تھا جیسے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے سنا ہوا تھا۔یہ پھر انہوں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی سن لیا تھا۔ اس روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ اﷲتعالیٰ نے اس کی ایسی سمجھ حضرت سلیمان کو عطا کی، اوراس جیسی سمجھ حضرت داؤد نہ سمجھ سکے ۔ قرآن کریم میں [اس قسم کا ایک دوسرا قصہ نقل کرتے ہوئے] ارشاد ہوا ہے: ﴿اِذْ یَحْکُمٰنِ فِی الْحَرْثِ اِذْ نَفَشَتْ فِیْہِ غَنَمُ الْقَوْمِ﴾ (الانبیاء:۷۸) ’’ یاد کیجئے جبکہ وہ کھیت کا فیصلہ کر رہے تھے کہ کچھ لوگوں کی بکریاں رات کو اس میں چر گئی تھیں ۔‘‘ حضرت سلیمان علیہ السلام نے بارگاہ ایزدی میں دعا کی تھی، کہ انھیں ایسی حکومت عطا کی جائے جو اس کی حکومت سے ملتی جلتی ہو، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام حضرت داؤد علیہ السلام سے افضل ہوں ، خصوصاً احادیث میں یہ بھی آیا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام سب انسانوں سے بڑھ کر عابد تھے۔[2] فصل:....[غیرشادی شدہ حامل کا حکم رجم] [اعتراض ]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک عورت کو سنگسار کرنے کا حکم دیا، جس کے ہاں نکاح کے چھ ماہ بعد بچہ پیدا ہوا تھا، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت کو مخاطب کر کے کہا اگر یہ عورت کتاب باری تعالیٰ کے مطابق آپ سے جھگڑے گی تو آپ پر غلبہ حاصل کر لے گی، اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَحَمْلُہٗ وَفِصَالُہٗ ثَلَاثُوْنَ شَھْرًا﴾ (احقاف:۱۵) ’’اس کے حمل کا اور اس کے دودھ چھڑانے کا زمانہ تیس مہینے ہے ۔‘‘ نیز فرمایا:﴿وَالْوَالِدَاتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَہُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ ِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃَ ﴾ (البقرہ:۲۳۳) ’’اور مائیں اپنے بچوں کوپورے دو سال تک دودھ پلائیں جو رضاعت کی مدت کو پورا کرنا چاہتے ہوں ۔‘‘ [[ایک آیت میں حمل و فصال کی مدت دو سال چھ ماہ بتائی، دوسری میں ذکر کیا کہ مدت رضاعت دو سال ہے، تو اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے استدلال کیا کہ کم از کم مدت حمل چھ ماہ بھی ہو سکتی ہے]]۔‘‘ [جواب ]:ہم کہتے ہیں کہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ صحابہ کرام سے مشورہ لیا کرتے تھے۔کبھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے مشورہ
Flag Counter