Maktaba Wahhabi

438 - 702
چابک لگائے۔ جب کہ جمہور میں سے کچھ ان دونوں اصولوں میں آپ کی مخالفت کرتے ہیں ۔اور بعض نے صرف ایک اصول میں مخالفت کی ہے۔ پس امام ابو حنیفہ اور امام مالک رحمہما اللہ فرماتے ہیں :’’اسی کوڑے لگانا واجب حد ہے۔ امام احمد سے بھی ایک روایت میں یہ قول ملتاہے۔ جب کہ دوسری روایت میں وہ کہتے ہیں :ہر وہ انسان جس کی جان جائز سزا میں چلی جائے تو اس کا قتل ہوجانا درست ہے۔ بھلے یہ سزا واجب ہو یا مباح ہو۔ اور بھلے اس کی مقدار متعین ہو یا نہ ہو۔ جب تک وہ اس پر زیادتی نہ کرے۔ پس اس اصول کے مطابق کسی سزا والے زخم کے بگڑ جانے؍سرایت کر جانے پر کوئی تاوان نہیں واجب ہوگا۔ ائمہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جب کسی جائز اور متعین سزا میں جان چلی جائے تو اس پر کوئی تاوان نہیں ہوگا۔ جیسے زنا کے کوڑے؛ چور کا ہاتھ کاٹنا۔ اور دیگر امورکے بارے میں اختلاف ہے۔ ان میں سے بعض کہتے ہیں : جائز سزاؤوں میں دیت دے گا؛ واجب سزاؤں پر کوئی دیت نہیں ہوگی ۔جیسا کہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ کاقول ہے؛ آپ فرماتے ہیں : زخم کے سرایت کرنے پر ضمان ہوگی؛ جب حق اللہ کی تعزیر سرایت کرنے پر ضمان نہیں ہوگی۔ ان میں سے بعض کہتے ہیں : غیر متعین سزا میں دیت ہوگی؛ جب کہ متعین سزا میں دیت نہیں ہوگی۔ بھلے وہ سزا واجب ہو یا جائز ہو۔ جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ کا قول ہے۔ اور کچھ علماء کہتے ہیں : کسی بھی صورت میں اس پر کوئی تاوان یا دیت نہیں ۔یہ امام مالک اور امام احمد رحمہما اللہ کا قول ہے۔ فصل:....[ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ پر اجتہادی غلطیوں کاالزام] [اعتراض ]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ عمر رضی اللہ عنہ نے ایک حاملہ عورت کو بلا بھیجا اور خوف کے مارے اس کا حمل ساقط ہو گیا، تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: ’’ہمارا خیال ہے کہ آپ صرف تأدیب کرنا چاہتے تھے لہٰذا آپ پر دیت وغیرہ نہیں آئے گی۔‘‘ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا:’’ اس کے ورثاء پر دیت کا ادا کرنا واجب ہے۔‘‘ [جواب ]:ہم کہتے ہیں کہ:’’ یہ مسئلہ ان اختلافی و اجتہادی مسائل میں سے ہے جن میں علماء کرام کا اختلاف موجود ہے۔فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کبار صحابہ مثلاً:حضرت عثمان، علی،ابن مسعود ، زیدبن ثابت ؛ حتی کہ ابن عباس وغیرہم رضی اللہ عنہم سے مشورہ فرمایا کرتے تھے۔ یہ آپ کے کمال علم و فضل؛ عقل اور دینداری کی دلیل ہے۔یہی وجہ ہے کہ آپ کی رائے سب سے زیادہ درست ہوا کرتی تھی ۔کبھی آپ کسی ایک کی رائے کو راجح قرار دیتے تو کبھی کسی دوسرے کی رائے کو۔ ایک عورت کو بارگاہ فاروقی میں لایا گیا جس نے زنا کا اقرار کیا تھا۔تمام لوگوں نے اس کو رجم کرنے پر اتفاق کرلیا ؛ مگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خاموش بیٹھے رہے ۔ آپ سے پوچھا گیا : آپ خاموش کیوں ہیں ؟تو آپ نے فرمایا: ’’میرا خیال ہے کہ یہ عورت اس کوجائز سمجھ رہی ہے اور زنا کی حرمت سے آگاہ نہیں ہے۔‘‘
Flag Counter