Maktaba Wahhabi

666 - 702
چاند دیکھنے والوں یا دیگر دقیق اشیاء میں غور کرنے والوں کی ہے ۔ ایسے ہوسکتا ہے کہ ان میں سے کسی ایک سے غلطی ہوجائے ۔ مگر ان سب لوگوں کا غلطی پر اجماع ہونا ناممکن ہوتا ہے۔ ایسے ہی حساب اور ہندسہ [انجینئرنگ ] کے امور میں غور و فکر کرنے والوں کا حال ہوتا ہے ۔ ان میں سے کسی ایک سے ایک یا دومسائل میں غلطی کا ہوجانا ممکن ہوتا ہے ۔ مگر جب کسی فن کے ماہرین کی بڑی تعداد کسی مسئلہ پر جمع ہوجائے تو عادتاً ان سے غلطی کا امکان باقی نہیں رہتا ۔ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ : جب کسی قوم کا ایک بات پر اتفاق ہوجائے ‘ ان کے لیے عصمت ثابت کرنا عقل اور وجود کے زیادہ قریب تر ہے بہ نسبت ایک انسان کے لیے اس کے اثبات کے ۔ جب کہ [اہل علم و فن کی ]بڑی تعداد کا جب کسی مسئلہ پر اجماع ہوجائے ؛ اور ان کے لیے عصمت کا حصول ممکن نہ ہو ‘ تو پھر یہ زیادہ مناسب ہے کہ اکیلا آدمی بھی معصوم نہ ہو۔ اور اگر فرد واحد کے لیے عصمت کا حصول ممکن ہے تو پھراس جیسے لوگوں کی جماعت اور ایک بڑی تعداد کے لیے عصمت کا حاصل ہونا زیادہ اہم ہے ۔ بنا بریں بہ حیثیت مجموعی پوری امت کو معصوم قرار دینا ایک شخص کو معصوم قرار دینے سے بہتر ہے، اس سے عصمت امام کا مقصد پورا ہو جاتا ہے اور امام کو معصوم قرار دینے کی ضرورت نہیں رہتی۔ رافضی جہالت کا ثبوت: روافض کی جہالت کا یہ عالم ہے کہ ان کے خیال میں سب اہل اسلام غلطی پر ہو سکتے ہیں جب ان میں ایک معصوم امام نہ ہو ، مگر ایک شخص کا غلطی سے پاک ہونا ضروری ہے۔صریح معقول اس بات کی گواہ ہے کہ جب بڑی تعداد میں علماء اپنے اجتہادات میں اختلاف کے باوجود کسی بات پر جمع ہوجائیں تو اس بات کا درست ہونا ؛ فرد واحد کی رائے کی نسبت سے حق کے زیادہ قریب تر ہوتا ہے۔اور جب خبر واحد سے علم کا حصول ممکن ہے تو پھر متواتر خبر سے علم کا حصول زیادہ اولی ہے ۔ اس کی مزید وضاحت اس امر سے ہوتی ہے کہ : عام مصالح میں امام لوگوں کے ساتھ شریک ہوتا ہے۔ یعنی اگر وہ اکیلا ہوتو ان امور کو بجالانے پر قادر نہ ہوسوائے اس صورت کے کہ وہ لوگوں کے ساتھ اس کام میں شریک ہو۔ امام کے لیے حدود کا قائم کرنا ‘لوگوں کے حقوق کا ادا کرنا ؛ لوگوں سے اپنا حق وصول کرنا ان کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ؛ اور نہ ہی ان کی معاونت کے بغیر دشمن سے جہاد ممکن ہے ؛ بلکہ امام کے لیے باجماعت نماز ادا کرنا یا جمعہ پڑھنا بھی اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک اس کے ساتھ لوگ نماز نہ پڑھیں ۔ اورنہ ہی عام لوگوں کے لیے امام کے اوامر و نواہی پر عمل کرنا ممکن ہوتا ہے جب تک اس کے اعوان و انصار اس کا ساتھ نہ دیں ۔ جب یہ لوگ ارادہ و قدرت میں امام کے ساتھ شریک ہیں ‘ توپھر وہ ان سے منفرد نہیں ہوسکتا ۔ ایسے ہی علم و رائے میں بھی یہ واجب نہیں ہوسکتا کہ امام منفرد ہو ‘ بلکہ دوسرے لوگ اس کے ساتھ شریک ہوتے ہیں ۔ وہ آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں ۔جیسا کہ امام اپنے اختیارات کے استعمال میں ان لوگوں کی مدد کے بغیر عاجز آجاتاہے ؛ ایسے ہی اسے اپنے علم میں بھی دوسرے لوگوں کی معاونت کی ضرورت ہوتی ہے ۔
Flag Counter