Maktaba Wahhabi

406 - 702
جب عطیات دینے کے لیے رجسٹر تیار کیا گیا ؛ تو اس میں لوگوں کے نام لکھے گئے ۔ لوگوں نے کہا : ہم آپ کے نام سے شروع کرتے ہیں ۔آپ نے فرمایا : نہیں ؛ بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقارب سے شروع کرو ۔ اور عمر رضی اللہ عنہ کا نام اسی جگہ پر لکھا گیا جس مقام سے اللہ تعالیٰ نے آپ کونوازا تھا۔آپ نے بنو ہاشم سے نام لکھنے شروع کیے ؛ پھر ان کے ساتھ بنو عبدالمطلب ملائے گئے ۔چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : ’’ بیشک بنو ہاشم اور بنو مطلب دونوں ایک ہی چیز ہیں ۔ یہ نہ ہی ہم سے جاہلیت میں جدا ہوئے اور نہ ہی اسلام میں ۔‘‘ لہٰذا اس رجسٹر میں عباس ؛ علی اور حسن و حسین رضی اللہ عنہم کو پہلے درجہ میں رکھا گیا ۔اور ان کے لیے ان کے ہم پلہ باقی تمام قبائل کے لوگوں سے بڑھ کر وظیفہ مقرر کیا۔ آپ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو اپنے بیٹے عبد اللہ پر ترجیح دیا کرتے تھے۔ اس پر آپ کے بیٹے کو غصہ بھی آیا اور انہوں نے کہا: آپ مجھ پر اسامہ بن زید کو ترجیح دے رہے ہیں ؟ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’یہ تجھ سے بڑھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو محبوب تھا ۔ اور اس کا باپ تیرے باپ سے بڑھ کر محبوب تھا۔‘‘ تمام سیرت و سوانح نگار علماء کرام رحمہم اللہ کے ہاں مشہور ہے کہ آپ بنی ہاشم کو باقی تمام لوگوں پر ترجیح دیا کرتے تھے۔ اس میں کوئی دو انسان اختلاف نہیں کرسکتے۔جس انسان کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت داروں کے ساتھ یہ سلوک ہو؛ تو کیا اس سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے انتہائی قریبی رشتہ داروں کے ساتھ ظالمانہ سلوک کرے۔اور پھر جنتی عورتوں کی سردار دختر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اتنے سے معمولی مال کے لیے ظلم کرتا؛ اور انہیں تکلیف دیتا جب ان کے بیٹوں کو اس مال سے کئی گنا بڑھ چڑھ کر دے رہا ہے ۔ اور ان لوگوں کو بھی دیتا ہے جن کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی دور کا تعلق ہے۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی نوازتا ہے ۔ پھر یہ بھی ایک عادت چلتی آرہی ہے کہ ملک و ریاست کے طلب گار عورتوں کے ساتھ تعرض نہیں کرتے ۔ بلکہ ان کا ہر لحاظ سے اکرام کرتے ہیں ؛ اس لیے کہ خواتین اقتدار کی اہل نہیں ہیں ۔تو پھر یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ مردوں کو تو عطیات سے نوازا جائے مگر عورت کو اس کے حق سے محروم رکھا جائے۔ حالانکہ اس کو محروم رکھنے میں اصل میں کوئی دینی یا دنیاوی غرض نہ ہو۔ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اور شرعی حدود میں سہل انگاری کا الزام: [اعتراض]: شیعہ مصنف کا یہ قول کہ:’’ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شرعی حدود کو معطل کردیا تھا اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ پر حد قائم نہ کی۔‘‘ [جواب ]: جمہور علماء نے اس ضمن میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حق بجانب قرار دیا ہے۔ جب شہادت کا نصاب کامل نہ ہو تو حد مجرم کی بجائے گواہوں پر لگائی جائے گی۔جن حضرات نے اس کے علاوہ کوئی دوسری بات کہی ہے ؛ ان کا بھی اس
Flag Counter