Maktaba Wahhabi

579 - 702
کوشش کی گئی ؛ اوران فسادی لوگوں کے ارادے بھانپ لیے گئے تھے کہ وہ آپ کو قتل کرنا چاہتے ہیں ۔اس وقت ہر طرف سے مسلمان آپ کی حفاظت اور مدد کے لیے آپ کے پاس پہنچنا شروع ہوگئے ؛ او رآپ کو ان لوگوں سے جنگ و قتال کا مشورہ دینے لگے ؛ مگر آپ رضی اللہ عنہ لوگوں کو برابر جنگ سے رکے رہنے کا حکم دیتے رہے ۔ اور آپ اپنے اطاعت گزاروں کو حکم دیتے کہ ان لوگوں سے جنگ نہ کی جائے۔ اور یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ آپ نے اپنے غلاموں سے کہا تھا : جو کوئی جنگ سے اپنے ہاتھوں کو روکے رکھے ؛ وہ آزاد ہے ۔‘‘ آپ سے یہ بھی کہا گیا : آپ شام چلے جائیں ؟ تو آپ نے فرمایا: ’’ میں اپنے دارِ ہجرت کو نہیں چھوڑوں گا۔ تو آپ سے کہا گیا : پھر آپ ان باغیوں سے قتال کریں ؟ فرمایا: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں پہلا تلوار چلانے والا نہیں بننا چاہتا۔‘‘ مسلمانوں کے ہاں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی یہ بہت بڑی فضیلت تھی کہ آپ نے صبر کیا یہاں تک کہ آپ کو قتل کردیا گیا۔ یہ بات بھی سب کو معلوم ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اجتہاد کی وجہ سے جو جنگ لڑی ؛ اس میں جتنے لوگوں کا خون بہایا گیا ؛ اس سے پہلے کبھی بھی مسلمانوں کا اتنا خون نہیں بہایا گیا۔ پس اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فعل آپ کی شان میں قدح کا موجب نہیں ہوسکتا ؛ بلکہ اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ خوارج اور نواصب جیسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں قدح کرنے والے لوگوں سے آپ کا دفاع کرنا واجب تھا؛ تو اس میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر ظلم کرنے والوں سے لڑنا بدرجہ اولی واجب اور حق پر تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت مسلمانوں کے خون کو مباح جاننے سے بہت ہی دور تھے۔ اور جو کوئی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر الزام لگاتا ہے کہ آپ مسلمانوں کے خون کو حلال و مباح سمجھتے تھے ؛ حقیقت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ پر قدح و طعن کا دروازہ کھولنا چاہتا ہے؛ [اس لیے کہ آپ کے دور میں بہت زیادہ مسلمان قتل ہوئے ہیں ]۔اور جو لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض ودشمنی رکھتے ہیں ؛ اورجنہوں نے آپ سے جنگ کی؛ ان کے لیے یہ کہنے کا جواز پیدا کرنا چاہتا ہے کہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کے بارے اللہ تعالیٰ کی حدود کو معطل کیا ۔ اس بارے میں اللہ تعالیٰ کی حد کو پامال کرنا ہرمزان کے قتل میں حدود کی پامالی سے زیادہ فساد پر مبنی ہے ۔ اور اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا دفاع واجب ہے کہ آپ مجتہد اور معذور تھے ؛ یا عاجز آگئے تھے ؛ تو پھر اسی طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے عذر پیش کرنا زیادہ مناسب اور اولی ہے۔ [ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ پر حد]: [اعتراض]: شیعہ مصنف کا یہ قول کہ:’’ ولید رضی اللہ عنہ جب شراب نوشی کا مرتکب ہوا تو عثمان رضی اللہ عنہ اس پر حد نہیں لگانا چاہتے تھے۔حتی کہ امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حد شرعی قائم کی ۔‘‘ [جواب]:یہ بیان ان دونوں حضرات[عثمان وعلی رضی اللہ عنہما] پر جھوٹ ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے حکم سے ولید پر حد لگائی تھی۔صحیحین میں یہ ثابت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان پر حد لگاتے ہوئے تخفیف کی اور صرف چالیس کوڑے لگائے تھے۔ اگر آپ اسی کوڑے لگاتے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس پر اعتراض نہ
Flag Counter