Maktaba Wahhabi

661 - 702
کرے اور بادشاہوں کے شہروں میں بسیرا کرے؛ توامام معصوم کا اس میں کیا حیلہ و چارہ باقی رہ جاتا ہے ؟ اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ صرف اکیلے امام معصوم سے مقصود حاصل نہیں ہوسکتا بھلے وہ قوت اور شوکت والا بھی ہو۔ اور پھر اس وقت کیا عالم ہوگا جب وہ خود مغلوب و عاجز ہو؟ اور اس سے بھی آگے بڑھ کر جب امام بالکل ہی مفقود اور غائب ہو‘ اور کوئی انسان اس سے بات چیت کرنے پر قادر ہی نہ ہو‘ اور اس معدوم امام کی کوئی حقیقت ہی نہ ہو [[کیونکہ یہ امام معصوم شیعہ کے نزدیک عاجز ہے اور ہمارے نزدیک معدوم ہے]]۔ ساتویں وجہ:....ہم یہ کہتے ہیں کہ: امام معصوم اسی صورت میں ظلم کا ازالہ اور اپنی رعیت سے عدل و انصاف کا سلوک کر سکتاہے جب وہ ظلم کے روکنے اور اپنا حق وصول کرنے پر قدرت رکھتا ہو۔جب وہ خود ہی عاجز و مغلوب ہو اور اپنے نفس سے ظلم کو نہ روک سکتا ہو؛اپنا حق وصول نہ کرسکتا ہو نہ ہی ولایت سے اور نہ ہی مال سے؛ اور نہ ہی اپنی بیوی کی میراث کا حق وصول کرسکتا ہو؛تو پھررعیت سے ظلم کو کیوں کر دور کرسکے گا؛ اور لوگوں کو کون سا حق ادا کرے گا؟ پھر اس وقت کیا عالم ہوگا جب امام خود ہی معدوم ہو‘ یا پھر اتنا ڈرپوک ہو کہ ظالموں کے ظلم یا قتل کئے جانے کے خوف سے کسی شہر یا گاؤں میں ظاہر ہونے کی ہمت نہ کرسکتا ہو۔[شیعہ خود اعتراف کرتے ہیں کہ ان کا امام خائف ہے] اور خوف قتل کی بنا پر چار سو ساٹھ سال سے باہر نہیں نکل رہا۔زمین ظلم و فساد سے بھری ہوئی ہے ؛ اور وہ اتنی طاقت نہیں رکھتا کہ کم از کم اپنا تعارف ہی کراسکے۔تو پھر وہ مخلوق سے ظلم کو کیسے ختم کرسکتا ہے ؟ یا مستحق کو اس کا حق کیسے دلوا سکتا ہے ؟ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ان لوگوں پر کس طرح برابر صادق آتا ہے ؛ [اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ]: ﴿اَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَکْثَرَہُمْ یَسْمَعُوْنَ اَوْ یَعْقِلُوْنَ اِِنْ ہُمْ اِِلَّا کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ سَبِیْلًا ﴾ [الفرقان ۴۴] ’’کیا آپ گمان کرتے ہیں کہ واقعی ان کے اکثرسنتے ہیں یا سمجھتے ہیں ، وہ نہیں ہیں مگر چوپاؤں کی طرح ، بلکہ وہ راستے کے اعتبار سے زیادہ گمراہ ہیں ۔‘‘ [اللہ تعالیٰ کی ظلم و قباحت سے تنزیہ :] آٹھویں وجہ:....یہ قول کہ : ’’کیا اللہ تعالیٰ قبیح حرکت کا ارتکاب کرتا ہے۔‘‘ اس مسئلہ میں علماء کے دو قول ہیں : ٭ بعض کہتے ہیں : اﷲتعالیٰ سے ظلم کا صدور ممتنع ہے؛ اور قبیح کا ارتکاب مستحیل ۔ اللہ تعالیٰ جو کچھ کرتے ہیں وہ حسن ہوتا ہے۔شیعہ کے ہاں یہ کہنا ممتنع ہے کہ اس سے بہتر یہ ہے۔ چہ جائیکہ کوئی اسے واجب قرار دے ۔ دوسرا قول:....ان لوگوں کا ہے جو کہتے ہیں کہ : چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نفس پر واجب قرار دیا ہے ‘ اس لیے عدل و رحمت اللہ تعالیٰ پر واجب ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ﴾ (الانعام:۱۲)
Flag Counter