Maktaba Wahhabi

348 - 702
بالاتفاق یہ جانتے ہیں کہ خلفاء ثلاثہ اورامیر معاویہ رضی اللہ عنہم کے دور میں جو نظم و ضبط اورکنٹرول تھا ؛ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں نہیں ہوسکا۔تو پھریہ حکمران و امام کیسے کامل ہوسکتا ہے اور یہ رعیت کیسے کامل ہوسکتی ہے ؟۔ بقول شیعہ ۔ جب کہ ان کے دورمیں بد انتظامی اور بدنظمی کا دور دورہ ہو۔ اوررعیت انتہائی ناقص ہی نہیں بلکہ شیعہ اعتقاد کے مطابق کافر و فاسق بھی تھی ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے احباب و اصحاب میں وہ شجاعت؛ جوانمردی؛ بہادری؛ سخاوت ؛ کرم نوازی علم اور دین داری نہیں تھی جوکہ خلفاء ثلاثہ رضی اللہ عنہم کے احباب واصحاب اور رعیت میں تھی۔ پس اس وجہ سے یہ لوگ نہ ہی دنیاوی امور میں اصلح تھے اور نہ ہی دینی امور میں ۔اس کے ساتھ ہی شیعہ کے قول کے مطابق ان کا کوئی امام معصوم قدرت و شوکت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر نہ تھا ۔تو پھر جب یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ سیدھے نہیں رہے ؛ تو دوسرے ائمہ جو آپ سے قدرت و شوکت اور عصمت میں کم تھے ؛ ان کے ساتھ بدرجہ اولی استقامت کے ساتھ نہیں رہے ہوں گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ قوم ہی انتہائی فسادی شریر اور ناقص ہے۔ شیعہ حضرات کہتے ہیں : ’’ معصوم کی عصمت اس لیے واجب ہوتی ہے کہ اس میں مکلفین کے لیے لطف و مہربانی اور ان کی مصلحت ہوتی ہے ۔‘‘جب یہ معلوم ہوگیا کہ غیر شیعہ کی مصلحت ہر زمانے میں شیعہ کی مصلحت سے بہتر رہی ہے ۔ اور ان پر مہربانی ہر دور میں شیعہ پر مہربانی کی نسبت بڑھ کر رہی ہے۔ تومعلوم ہوا کہ شیعہ جس عصمت کے دعویدار ہیں وہ عصمت سرے سے باطل ہے۔ پس یہ بھی واضح ہوگیاکہ پھر امت کو ایسے امام کی کوئی ضرورت نہیں [جس سے کوئی مصلحت حاصل نہ ہوتی ہو] اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے جو کچھ ارشاد فرمایا تھاوہ حق تھا؛ اور آپ کے دور میں مصلحتیں بدرجہ اتم پوری ہورہی تھیں ۔اور ہر طرف عدل و انصاف کا دور دورہ تھا۔ فصل: ....قولِ ابوبکر رضی اللہ عنہ میری بیعت واپس کردو [اشکال]: شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا:’’میری بیعت واپس کردو، میں تم میں سب سے بہتر نہیں ہوں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ تم میں موجود ہیں ۔‘‘ اگر ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت برحق تھی تو اس کا واپس کرنا گناہ تھا اور اگر مبنی برحق نہ تھی تو ان پر طعن لازم ٹھہرا۔‘‘[انتہی کلام الرافضی] [جواب]:ہم کہتے ہیں کہ: یہ روایت صریح کذب اور بے سند ہے۔کتب حدیث میں کوئی ایسی روایت موجود نہیں ۔آپ نے یہ نہیں فرمایا تھاکہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ تم میں موجود ہیں ۔بلکہ صحیح سند کے ساتھ تاریخ میں ثابت ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سقیفہ کے دن فرمایا تھا:’’ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ یا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ میں سے کسی ایک کی بیعت کرلو۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :’’ بلکہ آپ ہمارے سردار ہیں اور ہم میں سب سے بہتر ہیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی سب سے زیادہ آپ کو چاہتے تھے ۔ اللہ کی قسم ! اگر میری گردن مار دی جائے ‘ تومجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں ہوگی؛ اور یہ میرے نزدیک اس بات سے زیادہ پسندیدہ ہے کہ مجھے اس قوم پر امیر بنادیا جائے جس میں ابو بکر رضی اللہ عنہ موجود ہوں ۔‘‘ [1]
Flag Counter