Maktaba Wahhabi

478 - 702
نشانہ بنا لیا۔ مگر آپ کا بال بیکا بھی نہ کر سکے اور آپ کی رفتار میں کچھ فرق نہ آیا جب دین کو استحکام نصیب ہوا۔ اس کی جڑیں مضبوط ہو گئیں ۔ لوگ فوج در فوج اس میں داخل ہونے لگے اور ہر قبیلہ جماعت در جماعت مشرف بہ اسلام ہونے لگا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دنیائے فانی سے رحلت فرمائی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال پر شیطان نے اپنے خیمے گاڑ دیے۔ ان کی طنابیں کھینچ دیں اور اپنے تمام حربے استعمال کرنا شروع کردیے۔ لوگوں کے جی میں خیال آیا کہ اب ان کی امیدیں پوری ہوں گی۔ حالانکہ یہ بات غلط تھی، بھلا حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں یہ کیسے ممکن تھا؟ چنانچہ آپ ہمہ تن اس کے لیے تیار ہو گئے۔ اپنے احباب و انصار کو جمع کر لیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام کی رونق رفتہ لوٹ آئی۔ اس کا بکھراہوا شیرازہ پھر سے جمع ہو گیا اور اس کی کجی جاتی رہی۔ آپ نے نفاق کو لتاڑا اور اسلام کو حیاتِ نو بخشی۔ جب حق داروں نے حق کو پا لیا اور جان و مال ضائع ہونے سے بچ گئے تو آپ کا آخری وقت آپہنچا۔ آپ کی وفات سے جو خلا پیدا ہو گیا تھا وہ اس شخصیت سے پر کیا گیا جو رحم و کرم اور عدل و انصاف میں ان ہی جیسی تھی۔ وہ عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب تھے....وہ ماں قابل تحسین ہے جس نے عمر رضی اللہ عنہ جیسے بیٹے کو شکم میں رکھا اور اسے دودھ پلایا۔ اس باب میں اس کا کوئی نظیر نہیں ۔ آپ نے کفر کی مٹی پلید کردی۔ شرک کو پارہ پارہ کردیا اور دور افتادہ علاقوں کو فتح کرلیا۔ زمین نے اپنے خزانے اگل دیے اور جو کچھ چھپا رکھا تھا وہ نکال پھینکا۔ یہ مال و زر آپ کے پیچھے پیچھے بھاگتااور آپ اس سے کنارہ کشی اختیار کرتے، یہ تعاقب کرتا اور آپ بچ نکلتے۔ زندگی بھر ورع و زہد سے رہے اور اسی حالت میں دنیا چھوڑ کر راہیٔ ملک بقا ہوئے۔ اب مجھے بتائیے کہ تمھیں کس بات میں شک ہے اور تم میرے والد پر کیا حرف گیری کرتے ہو؟ آیا ان کے عہد خلافت پر جب وہ عدل وانصاف کے تقاضوں پر عمل پیرا تھے۔ یا ان کے یوم وفات پر جب وہ تم پر مہربان تھے (اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے شخص کو مسلمانوں کا خلیفہ مقرر کیا)۔ یہ خطبہ جعفر بن عون نے اپنے والد سے اور اس نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے۔‘‘[الریاض النضرۃ ۱؍۱۸۹ ؛ ابوبکر الصدیق؍از طنطاوی ۱۸ ] یہ سب بخاری و مسلم کے راوی ہیں ۔ [حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور ان کی متعین کردہ شوریٰ:] اب باقی رہا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا معاملہ تو آپ نے ان چھ حضرات کو متقارب الصفات خیال کیا تھا اور کسی کو بھی ترجیح نہ دی۔اس لیے کہ ان میں سے ہر ایک میں کوئی نہ کوئی ایسی صفت تھی جو دوسرے میں نہیں تھی۔اور آپ کا خیال تھا کہ اگر ان میں سے کسی ایک کو متعین کردیا تو اس سے ایک گونہ خلل واقع ہوگا۔اور اس کی تہمت آپ پر آئے گی۔پس آپ نے اللہ تعالیٰ کے خوف سے کسی ایک کو خاص طور پر متعین نہ کیا۔ اور آپ کو یہ بھی علم تھا کہ ان چھ افراد سے بڑھ کر کوئی دوسرا خلافت کا مستحق نہیں ہے۔ پس آپ نے دونوں مصلحتوں کو یک جا کردیا۔ ان چھ کی شوری بنادی کہ ان سے بڑھ کر کوئی
Flag Counter