Maktaba Wahhabi

383 - 702
ہوسکتا ہے کہ اسے اس سے پہلے حیض آچکا ہو۔ اور بعض فقہاء کہتے ہیں کہ کچھ دن کا حیض آجانا بھی کافی ہے ۔ اس لحاظ سے اگر وہ حیض کے آخری ایام میں بھی تھی تو تب بھی برأت رحم ہوچکی تھی۔ خلاصہ ء کلام! ہم اس معاملہ کی گہرائیوں سے واقف نہیں ۔ کیا یہ ایسا معاملہ تھا کہ اس میں اجتہاد جائز ہے یا نہیں ؟ایسی باتوں میں طعن کرنا بغیر علم کے بات کہنا ہے۔ اور بغیر علم کے بات کہنے کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قراردیا ہے۔ فصل: ....میراثِ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا پر اعتراض [اعتراض]: شیعہ مصنف لکھتا ہے :’’ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو فدک کی جاگیر نہ دے کر ارشاد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خلاف ورزی کی۔اور آپ کو خلیفہ رسول کہا جاتاہے ؛ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو خلیفہ نہیں بنایا۔‘‘ [جواب]:ہم کہتے ہیں کہ: بعض جاہل شیعہ کے سوا سب اہل اسلام حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تائید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ ایسا کرنے میں حق بجانب تھے۔ اس بارے میں تفصیلی کلام گزر چکا ہے۔ہم نے وہاں پر ثابت کیا ہے کہ عدم توریث والی حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور اس بارے میں رافضیوں کاکلام قطعی طور پر باطل ہے۔ ایسے ہی فدک کے مسئلہ پر بھی ابو بکر رضی اللہ عنہ کے بعد کے خلفاء اسی قول پر گامزن رہے ۔ ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہمانے اموال فدک میں سے کچھ بھی اپنے لیے نہیں رکھااور نہ ہی اس میں سے کچھ اپنے اہل خانہ کو دیا ۔اورنہ ہی کوئی زمین اپنے پاس روک کر رکھی۔ بلکہ بنی ہاشم کو اس سے کئی گنا بڑھ چڑھ کر زیادہ دیا ۔ پھر اگر کوئی معترض کہے کہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ ابن عباس رضی اللہ عنہمااور دوسرے بنی ہاشم سے مال روکا کرتے تھے۔ حتی کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما بصرہ کا آدھا مال لے گئے ۔توشیعہ کے پاس اس اعتراض کا اس کے سواکوئی جواب نہ ہوگا کہ : آپ عادل اورنیک حکمران تھے ‘اور آپ کا ارادہ صرف حق کا تھا۔ اس لیے آپ کو متہم نہیں کیا جاسکتا۔ یہ جواب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے حق میں زیادہ اولی اور مناسب ہے۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے حضرت علی اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماسے بڑھ کر محبت کرنے والے اورآپ کے حقوق کا خیال رکھتے تھے۔ کسی انسان کا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بدگمانی اور ہویٰ سے بری قرار دینا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی برأت سے بڑھ کر نہیں ہو سکتا ۔اس لیے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ایسے عادل حکمران تھے جو کہ اپنی ذات کے لیے کچھ بھی تصرف نہیں کیا کرتے تھے ۔بلکہ آپ کی تمام تر کوششیں مسلمانوں کی خیر وبھلائی کے لیے ہوا کرتی تھیں ۔ آپ نے اپنی ذات کے لیے کوئی مال نہیں لیا۔ بلکہ وہ مال مسلمانوں کا تھا۔ جب کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اسے اپنی ذات کے لیے طلب کررہی تھیں ۔ یہ بات ہم ضرورت کے تحت جانتے ہیں کہ حکمران اپنے حریف سے بڑھ کر خواہشات نفس سے دور ہوتاہے۔ اس لیے کہ حریف جس چیز کا طلب گار ہوتا ہے وہ اپنی ذات کے لیے طلب کرتا ہے۔جب کہ اس بارے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا علم حضرت
Flag Counter