Maktaba Wahhabi

312 - 702
ہے مگر امکان کا علم نہیں ہوتا اور عدم کا کوئی فاعل نہیں ہوتا۔ لہٰذا وہ اپنے عمِ علم کی بنا پر عمل کر بیٹھتے ہیں جو جہالت ہے اور وہی کفر کی اصل ہے۔ رب تعالیٰ کی حکمت جب کسی چیز کی تخلیق کو مقتضی ہوتی ہے تو لازم ہے کہ وہ اس چیز کے لوازم کو بھی پیدا کرے اور اس کی اضداد کی نفی بھی کرے۔ پس جب قائل کہتا ہے کہ اس نے اس چیز کے ساتھ اس کی ضد اور منافی کو پیدا کیوں نہیں کیا؟ یا یہ کہے کہ اس کا لازم کیوں پایا جاتا ہے تو یہ اس کے حقائق سے عدم علم کی دلیل ہے۔ اور یہ ایسے کہنے کی طرح ہی ہے کہ بھلا رب تعالیٰ نے زید کو اپنے باپ کے پیدا ہونے سے پہلے کیوں نہ پیدا کیا؟ تو ایسے شخص سے کہا جائے گا کہ بیٹے کا باپ سے پہلے پیدا ہونا ممتنع ہے۔ بے شمار تفصیلی امور ایسے ہیں جن میں غور و تدبر کرنے سے لوگوں پر ان کی حکمت ظاہر جاتی ہے۔ جیسے کہ ان پر آنسوؤں کے کھاری، رال کے میٹھے اور کان کے پانی کے کڑوے ہونے کی اور سمندری پانی کے کھارے ہونے کی حکمت ظاہر ہو جاتی ہے۔ یہ غور و تدبر ان پر ان باتوں کی حکمت کو عیاں کرتا ہے جن کی حکمت سے وہ لاعلم ہوتے ہیں ۔ پس جب آدمی دوسرے کو نحو، حکمت، طب یا فقہ وغیرہ میں زیادہ ماہر دیکھتا ہے تو ناقابل فہم مشکل امور کو اس کے حوالے کر دیتا ہے۔ پس رب العالمین کہ جس کی حکمت و رحمت نے عقلوں کو شش در کر رکھا ہے، اس کے علم نے ہر چیز کا احاطہ کر رکھا ہے، اس نے ہر چیز کو شمار بھی کر رکھا ہے اور وہ ارحم الراحمین اور احکم الحاکمین بھی ہے اور وہ بندوں پر ان کی ماؤں سے بھی زیادہ رحیم و کریم ہے، تو بھلا بندوں پر یہ بات کیوں واجب نہ ہو گی کہ جن باتوں کی حکمت سے وہ لاعلم ہیں ان کو رب تعالیٰ کے علم و حکمت کے حوالے کر دیں ۔ ہم نے ان باتوں کو دوسرے مواقع پر مفصل بیان کر دیا ہوا ہے۔ یہاں یہ بتلانا مقصود ہے کہ کتاب اللہ میں اختلاف کرنے والے ایک دوسرے کے کلام کو ردّ کرتے ہیں اور سب کے کلام حق و باطل سے رلے ملے ہیں ۔ اس کی ایک مثال اسماء، احکام اور وعد و وعید کی ہے اور دوسری مثال شرع اور تقدیر کی ہے۔ قرآن اللہ کا کلام اور غیر مخلوق ہے: اس کی تیسری مثال ’’قرآن‘‘ کی ہے۔ ائمہ اسلاف کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن اللہ کا کلام اور غیر مخلوق ہے، بلکہ یہ وہ کلام ہے جس کا رب تعالیٰ نے اپنی قدرت و مشیت سے تکلم فرمایا ہے اور یہ قول کسی کا بھی نہیں کہ قرآن مخلوق یا قدیم ہے۔ پھر اسلاف کے بعد لوگوں کا قرآن میں اختلاف ہو گیا اور اس بارے دو قول ہو گئے۔ اول: یہ قرآن مخلوق ہے جسے اللہ نے اپنے غیر میں پیدا کیا ہے اور کوئی کلام اللہ کے ساتھ قائم نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کلام یہ فعل کی صفت ہے ناکہ ذات کی اور ان کی فعل سے مراد فاعل سے منفصل وہ فعل ہے جو کہ فاعل کی ذات سے قائم نہ ہو، لیکن یہ بات بالکل غیر معقول ہے، ایسا کوئی متکلم دیکھا نہیں گیا جس کا کلام اس کی ذات کے ساتھ قائم نہ ہو۔
Flag Counter