Maktaba Wahhabi

349 - 702
ہم یہ بھی کہتے ہیں : اگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ کہا ہوتا کہ : تم میں علی رضی اللہ عنہ موجود ہیں ‘‘تو پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی جگہ انہیں امیر بنایا ہوتا ؛ اس لیے کہ لوگ آپ کی اطاعت گزاری پر ہوتے ۔[ خلیفہ و امام کو شرعاً یہ حق حاصل ہے کہ امامت و خلافت کی ذمہ داریوں سے دست بردار ہوجائے۔ یہ ایک قسم کا انکسار بھی ہے جس سے آپ کی قدر و منزلت میں کوئی فرق نہیں آتا] [اعتراض]: شیعہ کا کہنا ہے کہ : ’’اگر ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت برحق تھی تو اس کا واپس کرنا گناہ تھا۔‘‘ [جواب] : اگر یہ ثابت ہوجائے کہ آپ نے ایسا کچھ فرمایا تھا ؛ اگر حق کا معنی جائز ہے تو جائز کاترک کرنا بھی جائز ہے۔ اور اگر حق کا معنی واجب ہے تو پھر یہ ظاہر ہے کہ لوگوں نے نہ ہی آپ کو اس منصب سے ہٹایا ‘ اور نہ ہی آپ کے علاوہ کسی اور کو خلیفہ بنایا [تو واجب اپنی جگہ پر پورا ہورہا]۔ اگر آپ کی بیعت ترک کردیتے اور کسی دوسرے کو امیر بنادیتے تو پھر یہ منصب آپ پر واجب نہ ہوتا۔انسان کبھی خرید و فروخت یا کرایہ داری کا عقد کرتا ہے۔ یہ معاہدہ حق ہوتا ہے۔پھر وہ انسان اس معاہدہ کو ختم کرنا چاہتا ہے ؛ اس کی وجہ اس کی تواضع ؛ اور اس بوجھ کے اٹھانے سے اپنی سبکدوشی مقصود ہوتی ہے۔ اگرچہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا اس کا زیادہ حق دار نہ بھی ہو۔ کسی انسان کی تواضع سے اس کا حق ساقط نہیں ہوتا۔ فصل: ....کیا بیعت ابوبکر رضی اللہ عنہ عاجلانہ اقدام تھا؟ [اعتراض] :شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے:حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت ایک عاجلانہ اقدام تھا جس کے شر سے اﷲ نے بچا لیا، اگر کوئی اور شخص اس کا مرتکب ہو تو اسے قتل کردو۔اگر آپ کی امامت صحیح تھی تو پھر اس پر قتل کا استحقاق نہ ہوتا۔ پس اس سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر طعن لازم آتا ہے ۔اور اگر یہ امامت و خلافت باطل تھی تو ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما دونوں پر ایک ساتھ طعن لازم آتا ہے ۔‘‘[انتہی کلام الرافضی] [جواب] : ہم کہتے ہیں : یہ قول افتراء پردازی اور کذب کا آئینہ دار ہے۔اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ فرمایا تھا کہ: ’’کسی انسان کو یہ بات دھوکہ میں نہ ڈالے کہ وہ کہے:’’ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت ایک عاجلانہ اقدام تھا؛ جسے فوری طور پر پورا کیا گیا۔بلکہ یہ جلدی اس لیے عمل میں آئی تھی کہ آپ پہلے سے مقرر شدہ تھے۔‘‘لیکن اللہ تعالیٰ نے اس جلد بازی کے شر سے محفوظ رکھا ۔اور تم میں کوئی انسان ابوبکر رضی اللہ عنہ کی مانند نہیں ہے جس کے لیے گردنیں ماری جائیں ۔‘‘ اس کا معنی یہ ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت میں بغیر کسی انتظار یا تاخیر کے جلدی اس لیے کی گئی کہ آپ پہلے سے خلافت کے لیے متعین تھے۔جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فرمان سے ظاہر ہوتا ہے :’’ اور تم میں کوئی انسان ابوبکر رضی اللہ عنہ کی مانند نہیں ہے جس کے لیے گردنیں ماری جائیں ۔‘‘ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت تمام صحابہ پر عیاں تھی۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی آپ کو تمام صحابہ پر مقدم کرنا سب کو معلوم تھا۔آپ کے متعین ہونے کی نصوص کی موجودگی نے مشورہ یا تاخیر سے بے نیاز کردیا تھا۔بخلاف دوسرے
Flag Counter