Maktaba Wahhabi

397 - 702
سے ایک ہیں ۔ خلاصہ کلام کہ ! جس طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عدل و انصاف کو ظہور و پذیرائی حاصل ہوئی ؛ اس طرح آپ کے عدل و انصاف کے ساتھ نہ ہوسکا؛ بلکہ اس کے قریب بھی نہیں پہنچ سکے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے اقارب میں سے کسی ایک کو بھی ولایت نہیں سونپی۔جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے اقارب کو ولایت سونپی ؛ جیسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے اقارب کو ولایت سونپی تھی۔ مگر اس کے باوجود حضرت عمر رضی اللہ عنہ خوف محسوس کررہے ہیں کہ کہیں ان سے کسی پر ظلم نہ ہوگیا ہو۔ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بڑے عادل اور اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے تھے۔ یہ بات دلیل ہے کہ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے افضل ہیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کے باوجود کہ آپ کی رعیت آپ سے راضی تھی ؛ پھر بھی آپ کو خوف تھا کہیں کوئی ظلم نہ ہوگیا ہو۔ اس کے برعکس حضرت علی رضی اللہ عنہ کی رعیت آپ سے شاکی تھی ؛ اور آپ اپنی رعیت سے شاکی تھے ؛ اور ان کے ظلم بیان کرتے تھے ۔اور ان پر بد دعا کیا کرتے تھے۔یہاں تک کہ آپ فرمایا کرتے تھے: میں ان سے نفرت کرتے ہوں ‘اوریہ مجھ سے بغض رکھتے ہیں ۔اور پھر آپ نے اپنے شیعہ پر بد دعا کی : ’’ اے اللہ ! میں ان سے ملول ہوگیا ہوں ‘ تو انہیں مجھ سے ملول کردے ۔ اے اللہ ! مجھے ان کے بدلے میں بہتر ساتھی عطا فرما؛ اور میرے بدلے ان کو برا حکمران عطا فرما۔‘‘ ’’ تو اب جان جان لینا چاہیے کہ کون سا فریق امن کا زیادہ حق دار ہے ؛ اگر تم کچھ جانتے ہو؟[1] فصل:....وفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مؤقف [اعتراض]: شیعہ مصنف لکھتا ہے:اصحاب ِکتب ستہ نے اپنی اسناد سے ابن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت کیا ہے کہ : ’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں فرمایا:’’ قلم دوات لاؤ کہ میں تمھیں کچھ لکھ دوں ، جس کی موجودگی میں تم میرے بعد گمراہ نہ ہوگے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا آپ کے حواس بجا نہیں ہمارے لیے اﷲکی کتاب کافی ہے۔ جب شوروغل بپا ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہاں سے چلے جاؤ نبی کے پاس شوروغل زیب نہیں دیتا۔‘‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہمانے کہا مصیبت
Flag Counter