Maktaba Wahhabi

282 - 702
کو ثابت کیا اور تقدیر کے شاہد سے شرع کو باطل ٹھہرایا۔ بلاشبہ یہ قول تقدیر کی نفی کرنے والوں کے قول سے بھی زیادہ دین اسلام کے خلاف ہے۔ ہم نے ان باتوں کو ایک اور مقام پر مفصل بیان کر دیا ہوا ہے۔ البتہ یہاں ذم اور عقاب کے اعتبار سے لوگوں کے اختلاف کو بیان کرنا مقصود ہے اور ہم نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ حال دو اصل کی طرف لوٹتا ہے۔ لوگوں نے جن باتوں میں بھی اختلاف کیا ہے، کیا ان میں سے ہر ایک کے لیے ان باتوں میں ایسا اجتہاد ممکن تھا جس سے انھیں حق کی معرفت مل جاتی؟ یہ لوگ اس باب میں دو قسم پر تھے: (۱) اجتہاد پر قادر اور (۲) اجتہاد پر غیر قادر؟ [توحیدکی تیسری قسم :] موصوف کا قول کہ ’’توحید کی تیسری قسم وہ ہے جسے حق تعالیٰ نے اپنی ذات کے ساتھ خاص کر لیا ہے اور وہ اپنی قدرت کی وجہ سے اس توحید کا مستحق ہے ....الی آخر الکلام۔ یہ قول گزشتہ میں ذکر کیا جا چکا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر جنید وغیرہ ائمہ طریق نے انکار کیا ہے۔ کیونکہ یہ لوگ قدیم اور حادث میں فرق نہیں کرتے، ان لوگوں کے قول کی حقیقت اتحاد اور حلولِ خاص کے سوا اور کچھ نہیں اور یہ جناب مسیح علیہ السلام کی بابت نصاریٰ کے قول کی جنس میں سے ہے اور وہ یہ کہ مُوَحِّد ہی مُوَحَّد ہو۔یعنی اللہ کو سوائے اللہ کے اور کوئی واحد کہنے والا نہ ہو۔ ان کے نزدیک اللہ کے سوا ہر ایک اللہ کو واحد کہنے والا دراصل جاحد ہے۔ (جیسا کہ گزشتہ میں اس توحید کے ذکر کے تحت تین اشعار ذکر کیے گئے ہیں جو اسی معنی کو بیان کرتے ہیں )۔ یعنی جب بندہ توحید کی بات کرتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ وہ متکلم ہے اور وہ اپنی تعریف بیان کر رہا ہے اور وہ ایسی بات کا استعارہ کرتا ہے جس کا وہ اہل نہیں ہوتا۔ پس وہ اس کا تکلم کرتا ہے اور یہ وہ عاریت ہے جس کو واحد باطل کر دیتا ہے۔ لیکن جب وہ اپنے وجود کے شہود سے فنا ہو جاتا ہے تو اس کی زبان پر تکلم کرنے والا خود حق باری تعالیٰ ہوتا ہے کیونکہ جو نہ تھا وہ فنا ہو چکا اور جو ہمیشہ سے تھا وہ باقی ہے۔ لہٰذا اب حق ہی اپنی ذات سے اپنی تعریف کر رہا ہے ناکہ بندے کے ذریعے اپنی تعریف کر رہا ہے۔ لہٰذا اب موحَّد ہی موحِّد ٹھہرے گا۔ اسی لیے یہ کہا اللہ کا اپنی توحید بیان کرنا ہی اس کی توحید ہے۔ یعنی خود اللہ اپنی توحید بیان کرے ناکہ مخلوق اس کی توحید بیان کرے۔ کیونکہ ان لوگوں کے نزدیک مخلوق اس کی توحید کی ناطق مخلوق نہیں ہے۔ یہ جناب مسیح علیہ السلام کی بابت نصاریٰ کے اس قول کی طرح ہے کہ ’’لاہوت نے ناسوت کی زبان سے تکلم کیا۔‘‘ حقیقت امر یہ ہے کہ ان لوگوں کے نزدیک جس نے بھی توحید کا تکلم یا تصور کیا اور وہ غیر اللہ کو بھی دیکھ رہا ہے تو وہ موحِّد نہیں ہے اور جب وہ اپنے آپ سے بالکلیہ غائب اور فنا ہو گیا تو اس کے توحید فنا کا مقام کامل ہو جائے گا جو اسے اربابِ جمع کی توحید کی طرف کھینچ لے جائے گا۔ پھر حق باری تعالیٰ ہی توحید کا ناطق و متکلم ہو گا اور وہی موحِّد بھی ہو گا اور موحَّد بھی۔ ناکہ وہ غیر کا موحِّد ہو گا۔
Flag Counter