Maktaba Wahhabi

540 - 702
تمام امت سے کم فتنوں میں مبتلاء ہوئے۔ اس لیے کہ جیسے جیسے زمانہ عصر نبوت سے دور ہوتا جاتا ہے تفرقہ اور اختلاف بڑھتا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں کوئی بھی بعد ایسے ظاہر اور غالب نہیں تھی۔ جب آپ شہید کردیے گئے تو دو متقابل بدعتیں پیدا ہوئیں ۔ ایک خوارج کی بدعت تھی جو کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کافر کہتے تھے۔اور دوسری روافض کی بدعت تھی جو کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت و عصمت اور بعض آپ کی نبوت کے دعویدار تھے۔ اوربعض آپ کی خدائی کے دعویدار۔ پھر جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا آخری دور تھا ؛ جب ابن زبیر اور عبد الملک کی امارت چل رہی تھی تو مرجئہ اور قدریہ کی بدعت سامنے آئی۔ پھر تابعین کا ابتدائی دور تھا تو خلافت بنی امیہ کے آخری دور میں جہمیہ ؛ معطلہ؛ مشبہہ اور ممثلہ کی بدعات ظہور پذیر ہوئیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عہد مسعود میں ان میں سے کوئی ایک بھی نہیں تھا۔ یہی حال جنگ و جدال اور لڑائی کے فتنوں کا بھی۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے مبارک عہد میں لو گ متفق تھے اور دشمن سے جہاد کیا کرتے تھے۔ جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ شہید کردیے گئے اور حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ کا مکہ میں محاصرہ کر لیا گیا تو پھر مدینہ میں حرہ کا واقعہ پیش آیا۔ پھر جب یزید مرگیا تو شام میں ’’مرج راھط ‘‘نامی جگہ پر مروان اور ضحاک کے مابین معرکہ پیش آیا۔ پھر مختار اٹھا اور اس نے ابن زیاد کو قتل کر ڈالااور ایک فتنہ پیش آیا۔ پھر مصعب بن زبیر آئے اور انہوں نے مختار کو قتل کر ڈالا اور ایک اور معرکہ پیش آیا۔ پھر حجاج نے ابن زبیر کی طرف فوجیں بھیجیں اورایک مدت تک کے لیے ان کا محاصرہ کرلیا گیا اور پھر انہیں قتل کردیا ؛ اس طرح ایک اور فتنہ پیش آیا۔ پھر حجاج عراق کا حکمران بنا تو اس کے خلاف ابن اشعث نے خروج کیا ؛ اس کے ساتھ عراقیوں کی بہت بڑی تعدادتھی؛ اور بہت بڑا فتنہ پیش آیا۔ یہ تمام واقعات حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد پیش آئے۔ پھر خراسان میں ابن مہلب کا فتنہ پیش آیا؛ اور کوفہ میں حضرت زید بن علی رحمہ اللہ شہید کردیے گئے۔ ان کے ساتھ لوگوں کی بہت بڑی تعداد قتل ہوئی۔ پھر اس کے بعد خراسان سے ابو مسلم کھڑا ہوا؛ اور پھر انتہائی سخت خطرناک جنگیں پیش آئیں ۔ان فتنوں کا یہاں پر بیان کرنا طول اختیار کرجائے گا۔ بس اس پر قیاس کر لیجیے ۔ [حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل]: یہ سبھی کو معلوم ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد افضل ترین زمانہ خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کا زمانہ تھا۔ان کے بعد مسلمان بادشاہوں کے زمانوں میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ سے بڑھ کر بہتر زمانہ کسی کا بھی نہیں دیکھا گیا۔ اور نہ ہی کسی بادشاہ کے زمانہ میں مسلمانوں کی حالت اتنی بہتر اور اچھی رہی ہے جیسے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں تھی۔یہ اس وقت ہوگا جب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور کا مقابلہ بعد میں آنے والوں کے ادوار سے کیا جائے۔ اور اگر اس دور کا مقابلہ پہلے کے زمانوں
Flag Counter