Maktaba Wahhabi

606 - 702
تھے۔ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ: بیٹھ جاؤ۔ انہوں نے انکار کردیا۔ پھر کہا کہ :بیٹھ جاؤ۔ انہوں نے پھر انکار کیا۔ چنانچہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے تشہد پڑھا لوگ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور عمر کو چھوڑ دیا؛ آپ نے فرمایا: ((أما بعد! فمن کان منکم یعبد محمداً صلی اللّٰہ علیہ وسلم فإن محمداً صلی اللّٰہ علیہ وسلم قد مات ومن کان یعبد اللّٰہ فإن اللّٰہ حی لا یموت۔ قال اللّٰہ تعالیٰ: ﴿وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ اَفَاْئِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓی اَعْقَابِکُمْ وَ مَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰی عَقِیْبَیْہِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیْئًا وَّ سَیَجْزِی اللّٰہُ الشّٰکِرِیْنَ﴾[آل عمران۱۴۴] ’’امابعد!تم میں سے جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا۔ تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے ہیں ۔اور جو کوئی اللہ کی عبادت کرتا تھا تو اللہ زندہ ہے، نہیں مرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے : ’’(حضرت)محمد صلی اللہ علیہ وسلم صرف رسول ہی ہیں ۔ آپ سے پہلے بہت سے رسول ہو چکے ۔کیا اگر ان کا انتقال ہو جائے یا شہید ہوجائیں تو تم اسلام سے اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے اور جو کوئی پھر جائے اپنی ایڑیوں پر تو اللہ کا کچھ نہ بگاڑے گا عنقریب اللہ تعالیٰ شکر گزاروں کو نیک بدلہ دے گا ۔‘‘ [آپ فرماتے ہیں :] بخدا اس سے پہلے لوگ گویا جانتے ہی نہ تھے کہ اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی ہے، یہاں تک کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی لوگوں نے یہ آیت ان سے سن کر اخذ کی اور کوئی شخص سنا نہیں جاتا تھا مگر اس کی تلاوت کرتا تھا۔ [صحیح بخاری:ج ۱:ح ۱۱۷۷] حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں : حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ اللہ کی قسم !میں نے جب سنا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اس کی تلاوت فرمارہے تھے ؛ یہاں تک کہ میری ٹانگوں نے جواب دے دیا اور میں زمین پرگر پڑااور مجھے علم ہوگیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انتقال فرما گئے ہیں ۔‘‘[1] [امامت میں اختلاف]: [اعتراض]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’چوتھا اختلاف : امامت میں واقع ہوا۔امت میں سب سے بڑا اختلاف امامت کا اختلاف ہے۔کہ اس طرح اسلام کی چھاؤنی پر تلوار لہرائی گئی جیسا کہ ہر دور میں امامت پر تلوار آویزاں رہی ہے۔‘‘ [جواب]:ہم کہتے ہیں : یہ سب سے بڑی غلط بات ہے۔الحمد للہ کہ حضرت ابوبکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہم کے زمانے میں اسلام پر کوئی تلوار آویزاں نہیں تھی۔ اور نہ ہی ان حضرات کے دور میں مسلمانوں میں کوئی اختلاف پایا جاتا تھا۔ اور نہ ہی اس دور میں مسئلہ امامت میں کوئی اختلاف تھا۔چہ جائے کہ تلوار چل رہی ہو۔ اورنہ ہی ان کے مابین کسی دینی معاملہ پر
Flag Counter