Maktaba Wahhabi

148 - 702
٭ جیسے کہا جاتا ہے کہ سُرِّیَّۃٌ ؛ سِرٌّ سے ماخوذ ہے۔اس سے مراد نکاح ہے۔اور اگر اسے قیاس کے مطابق ماخوذ کیا جاتا تو فعیلۃ کے وزن پر سریرۃ آتا۔لیکن عربوں کی عادت ہے کہ وہ حرف مضاعف اور معتل کو آگے پیچھے لاتے ہیں ۔ ٭ اس کی ایک اور مثال جیسے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:﴿فَانْظُرْ اِلٰی طَعَامِکَ وَ شَرَابِکَ لَمْ یَتَسَنَّہْ﴾ ’’اپنے کھانے کی طرف دیکھو: وہ باسی تک نہیں ہوا۔‘‘ [البقرۃ ۲۵۹] ٭ اس ھاء میں احتمال ہے کہ یہ اصلی ہو؛ اسی لیے اسے ’حرف’’لم‘‘ سے جزم دی گئی ہے۔اوریہ بھی احتمال ہے کہ سکون کی ہاء ہو؛ جیسے کتابیہ ‘ حسابیہ ‘ اقتدہ میں ہے۔ ٭ اہل لغت مفسرین اس کا معنی بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں : کہ وہ بدلا نہیں تھا۔ [مشترکہ معانی و الفاظ کا مسئلہ ] ٭ یہاں پر مقصود یہ ہے کہ: جب دو لفظوں میں اکثر حروف مشترک ہوں ؛ اور ان کے بعض حروف مختلف ہوں ؛ تو کہا جاتا ہے کہ: ان میں سے ایک لفظ دوسرے سے مشتق ہے۔ اسے اشتقاق اکبر کہتے ہیں ۔اور اشتقاق اوسط یہ ہے کہ: دو لفظوں میں حروف مشترکہ ہوں ؛ مگر ان کی ترتیب مختلف ہو تو اسے اشتقاق الاوسط کہتے ہیں ۔جیسے کوفیوں کا قول ہے کہ اسم سمۃ سے مشتق ہے۔ پس شیطان شطن سے مشتق ہے۔اوراشتقاق اکبر کے اعتبار سے یہ شاط یشیط کے باب سے ہے۔ کیونکہ ان دونوں میں ’’حرف ’’شین اور طاء ‘‘ مشترک ہیں جب کہ نون اور یاء متقاربان ہیں ۔ ٭ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے سورۃ الناس میں جنات اور انسانوں کی طرف سے ڈالے جانے والے وسوسوں سے پناہ مانگنے کا حکم دیا ہے۔ جو لوگوں کے سینوں وسوسے ڈالتے ہیں ۔ انسان پر یہ وسوسہ اس کی اپنی ذات کی طرف سے بھی ہوسکتا ہے؛ اور کسی دوسرے کی طرف سے بھی۔ اس آیت کے معانی میں اپنی جگہ پر ایک مفصل اور لمبی بحث موجود ہے۔ ٭ مقصود یہ بیان کرنا ہے کہ صحاح میں حضرت ابوہریرہ اورحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت سے ثابت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جب بندہ گناہ کا ارادہ کرتا ہے تواس پر کوئی گناہ نہیں لکھا جاتا؛اگروہ اس پر عمل نہ کرے تو اس کے لیے ایک کامل نیکی لکھ دی جاتی ہے۔ اورگر وہ اس پر عمل کرلے تو اس پر صرف ایک گناہ لکھاجاتا ہے ۔ اورجب وہ نیکی کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے نامہ میں ایک کامل نیکی لکھ دی جاتی ہے۔‘‘ اور اگر وہ اس پر عمل کرے تو دس گنا سے سات سو گنا تک؛اور اس سے بھی کئی گنا زیادہ نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں ۔‘‘[1]
Flag Counter