Maktaba Wahhabi

652 - 702
حالت میں حاصل ہے جو اس کی حالت ظہور کے واقف کار ہیں ۔ یہ مہربانی ان لوگوں کو حاصل نہیں ہوسکتی جو امامت کے واجب ہونے کا انکار کرتے ہیں ۔جیساکہ یہ مہربانی اس انسان کو حاصل نہیں ہوسکتی جن کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل نہیں ہوتی۔اور ان لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو اس کی معرفت رکھتے ہیں ۔کہنے لگے کہ : اس سے یہ سوال ساقط ہوگیا۔اور معصوم کی امامت کا عقیدہ واجب ہوگیا۔ پھر ان سے کہا گیا کہ : اگر حالت غیبت میں یہ لطف و مہربانی ایسے ہی حاصل ہے جیسے کہ حالت ظہور میں ؛ تو پھر واجب ہوتا ہے کہ وہ اس کے ظہور سے بے نیاز ہوجائیں ۔اور مرتے دم تک اس کی اتباع کرتے رہیں ۔یہ بات تو ان کے عقیدہ کے خلاف ہے۔ [عارفین کے ہاں لطف کی حقیقت ] کہنے لگے : ’’ عارفین کے ہاں لطف و مہربانی غیبت کی حالت میں تنفیر و تبیعد عن القبائح کے باب سے ہے ‘ جیسا کہ حال ظہور میں ہوتا ہے۔ لیکن ہم امام کا ظہور کسی دوسری وجہ سے واجب قرار دیتے ہیں ۔ وہ وجہ یہ ہے کہ مؤمنین سے ظالموں کا غلبہ ختم کیا جائے۔ اور ظالم لوگوں سے مال لیکر انہیں ان کی اصل جگہ پر واپس کیا جائے۔ اور ان ظالم حکومتوں کاخاتمہ کیا جائے جن کو ختم کرنا ہمارے بس کی بات نہیں ۔ اورکفار سے جہاد کیا جائے ‘جو کہ امام کے ظہور کے بغیر ممکن نہیں ۔ ان سے کہا جائے گا کہ : ’’ اس کلام کا باطل ہونا ظاہر ہے۔‘‘اس لیے کہ جس امام کو تم لطف قرار دیتے ہو؛ جس پر عادات وعقول گواہ ہیں ؛ جیسا کہ تم نے خود ذکر کیا ہے۔ تم کہتے ہو: ’’ جب جماعت کے لیے پر ہیبت ‘صاحب اطاعت‘ متصرف اور زور آور امیر ہو تو اس کے وجود کی صورت میں لوگ اصلاح کے قریب تر ہوتے ہیں اور فساد سے بہت دور ہوتے ہیں ۔ او راس کے لیے تم نے معصوم ہونے کی شرط لگائی۔ اورتم نے یہ بھی کہا کہ : اس کے بغیر ڈراوے کا مقصود حاصل نہیں ہوسکتا۔ اور یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ جو ائمہ اس منتظر سے پہلے موجود تھے ؛ ان میں سے کسی ایک میں بھی یہ اوصاف نہ پائے جاتے تھے۔ ان میں سے کسی ایک کو بھی نہ ہی قوت و شوکت حاصل تھی اور نہ ہی وہ لوگوں کے معاملات میں تصرف کرنے کا اختیار رکھتا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ خلافت پر متمکن ہوئے ‘ مگر آپ کو وہ قوت اور تصرف حاصل نہ ہو سکا جو آپ سے پہلے کے خلفاء کو تھا۔ ان کے بعد آنے والے ائمہ میں سے تو کسی کو بھی نہ ہی کوئی قوت حاصل ہوئی اورنہ ہی لوگوں پر کوئی با تصرف اختیار چلا۔ بلکہ ان میں سے بھی کسی ایک کو وہی مقام حاصل ہوا کرتا تھا جو ان کے دوسرے ہم پلہ [علماء و اکابر] کو حاصل ہوتا تھا۔ جب کہ امام غائب کو تو ان امورمیں سے کچھ بھی حاصل نہیں تھا۔اس لیے کہ جو کوئی امام کے وجود کا اقرار کرتا ہے ؛ اسے پتہ ہے کہ امام ساڑھے چار(اب بارہ ) سو سال سے غائب ہے۔اور وہ خوف سے لرزیدہ ہے ‘ اس کا ظہور ممکن بھی نہیں ؛ چہ جائے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حدود قائم کرے ؛ اور نہ ہی وہ کسی کو کوئی حکم دے سکتا ہے اور نہ ہی منع کرسکتا ہے ؛اور امت میں قتل و غارت گری اور دنگاوفساد بھی اب تک موجود ہے۔ نیز آپ دیکھ سکتے ہیں کہ رافضی دیگر سب فرقوں سے
Flag Counter