Maktaba Wahhabi

444 - 702
سزا دی جائے گی۔مثال کے طور پر جب کسی جوڑے کولحاف میں لپٹے ہوئے دیکھا جائے ؛یا اس طرح کی کسی دیگر قابل اعتراض حالت میں ؛ [تو انہیں تعزیر کے لیے کوئی سزا دی جائے ]۔ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین یہ معروف تھا کہ حمل واضح ہونے پر حد قائم کی جاتی ہے ؛ تو اگر عورت چھ ماہ سے پہلے بچہ جن لے تواس پر بھی حد قائم ہوسکتی ہے۔ نکاح کے چھ ماہ بعدبہت ہی شاذو نادر حالت میں بچہ پیدا ہو جاتا ہے۔اور نادر قسم کے امور کبھی انسان کے ذہن سے اوجھل ہوجاتے ہیں ۔توحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اسے عورتوں کی عام عادت کے مطابق سمجھا ہوگا ۔جس طرح عورتوں کی عام طبیعت ہوتی ہے کہ نو ماہ کے بعدبچہ جنم دے دیتی ہیں ۔ بعض اوقات بہت ہی کم یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی عورت کو دو سال تک حمل رہا؛ اورنادر طور پر چار سال تک بھی حمل رہا ہے۔ اور ایسی عورت کے متعلق بھی اطلاع ملی ہے جسے سات سال تک حمل رہا۔[ علماء کا اختلاف ہے کہ ]جب عورت مرد سے جدا ہونے کے اتنے عرصہ بعد بچہ جنم دے تو کیا اس کا نسب اس آدمی سے ملایا جائے گا یا نہیں ؟یہ اختلاف بڑا معروف ہے۔اس کا شمار اجتہادی مسائل میں ہوتا ہے۔ بہت سارے ایسے علماء بھی ہیں جو حمل کی انتہائی آخری حد نادر ترین مدت کومقرر کرتے ہیں ۔ اور کوئی دوسال حد مقرر کرتا ہے اور کو ئی چار سال ؛ اور کوئی سات سال۔ اور بعض کہتے ہیں : یہ نادر معاملات ہیں ؛ ان کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں کی جائے گی۔ اور جب عورت مرد سے جدا ہونے کے بعد خلاف عادت بچے کوجنم دے ؛ اور ایسے آثار بھی ہوں کہ یہ بچہ کسی دوسرے کا ہے تو پھر اس کا نسب اس کے ساتھ نہیں ملایا جائے گا۔ فصل:....دادا کی میراث اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ [اعتراض ]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اقوال میں تناقض پایا جاتا ہے، چنانچہ دادا کے بارے میں آپ نے سومختلف و متضاد فیصلے کیے۔‘‘ [جواب ]: جدّ (دادا) کے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فیصلہ دیگر صحابہ کی نسبت اقرب الی الحق ہے ۔ جب میت کا دادا بھی زندہ ہو اور بھائی بھی موجود ہوں تو اس کے بارے میں صحابہ کے دو قول ہیں : ۱۔ پہلا قول یہ ہے کہ دادا کی موجودگی میں بھائیوں کو ورثہ نہیں ملے گا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور بہت سارے دوسرے صحابہ کرام جیسے : ابی بن کعب؛اور ابوموسیٰ و ابن عباس؛ ابن زبیر؛ اور ان کے علاوہ دیگر چودہ صحابہ رضی اللہ عنہم اسی کے قائل ہیں ۔ علاوہ ازیں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ، شافعیہ میں سے ابن سریج اور حنابلہ میں سے ابو حفص برمکی رحمہ اللہ کی بھی یہی رائے ہے؛ اور امام احمد رحمہ اللہ سے بھی ایک روایت میں یہی منقول ہے۔ اور یہ مسلک اقرب الی الحق ہے۔اس لیے کہ حقیقی بھائیوں کے بیٹوں کو دادا سے وہی نسبت ہے جو دادا کے بیٹوں یعنی چچوں کو دادا کی طرف، اس بات پر مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ دادا یہاں باپ کا قائم مقام ہے اور باپ چچوں سے اولیٰ ہے، لہٰذا
Flag Counter