Maktaba Wahhabi

565 - 702
[جلاوطنی کے مستحق کون ؟]: طرد کا معنی ہوتا ہے ملک بدر کرنا۔ خارج از بلد[جلا وطن] کرنے کی سزا تعذیراً زانی یا مخنث کو دی جاسکتی ہے ۔اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو جلا وطن کیا تھا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ہمیشہ کے لیے اس شہر میں قدم نہ رکھ سکے۔ یہ سزا شرعاً کسی جرم میں بھی ثابت نہیں کہ دائماً کسی شخص کو خارج از بلد کردیا جائے۔ بخلاف ازیں جلا وطن کرنے کی سزا سنت میں صرف ایک سال کے لیے ہے۔یہ سزا زناکار اور مخنث کے لیے ہے ۔یہاں تک کہ وہ توبہ کرلیں ۔جب حاکم کسی بات پر تعزیراً سزا اس لیے دے کہ مجرم توبہ کرلے ؛ تو جب بھی وہ توبہ کرلے گا ؛ تعزیر ساقط ہوجائے گی۔ اور اگر وہ اپنے گناہ پر ہی قائم رہے تو یہ ایک اجتہادی معاملہ ہے اس میں بھی کو ئی متعین سزا نہیں ہے۔اور نہ ہی اس کا کوئی وقت مقررہ ہے ۔ اگر اس بات کو تسلیم کرلیں ؛ تو جلاوطنی کی سزا ہجرت کے آخری دور میں شروع ہوئی ؛ تو اس کی مدت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے تک طول نہیں پکڑتی۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور تک تومدت اور ہی لمبی ہوجاتی ہے ۔ نیز یہ کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے عبد اللہ بن ابی سرح کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سفارش کی تھی۔ عبد اللہ بن ابی سرح رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کاتب وحی تھا۔ پھر اسلام سے مرتد ہوگیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی لوگوں کے ساتھ اسے بھی مباح الدم قرار دے دیا تھا۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اسے لیکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ؛ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی سفارش قبول کر لی ؛ اس کی بیعت لے لی۔توپھر یہ کیسے ممکن ہوسکتا تھا کہ حکم کے بارے میں آپ کی شفاعت قبول نہ کی جاتی ؟ یہ بات بھی روایت کی گئی ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حکم کو واپس بلانے کی اجازت طلب کی تھی اور آپ نے انہیں یہ اجازت دیدی تھی۔ ہم یہ بات بھی یقینی طور پر جانتے ہیں کہ حکم بن العاص کا گناہ عبد اللہ بن ابی سرح کے گناہ سے کئی درجہ کمتر تھا۔ عبداللہ کا قصہ ثابت شدہ اسناد کے ساتھ مشہور و معروف ہے۔ جب کہ حکم کا قصہ جن لوگوں نے ذکر کیا ہے ؛ عام طور پر انہوں نے مرسل سند کے ساتھ ذکر کیا ہے ۔ اور اس قصہ کے ذکر کرنے والے بھی ایسے مؤرخ ہیں جن کے ہاں بہت زیادہ جھوٹ پایا جاتا ہے۔ ان کے ہاں بہت کم ہی کوئی روایت کمی یا زیادتی سے محفوظ رہتی ہے۔ اس لیے کوئی ایسی ثابت شدہ روایت نہیں مل سکی جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کم درجہ بھی کسی انسان کی شان میں قدح کا موجب بن سکتی ہو۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے فضائل ؛ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آپ سے محبت ؛آپ کی تعریف و توصیف بزبان رسالت مآب ؛ اور خصوصی طور پر اپنی دوبیٹیوں کی ان سے شادی ؛ آپ کے لیے جنت کی شہادت؛ اور صلح حدیبیہ کے موقع پر بحیثیت سفیر آپ کی مکہ مکرمہ روانگی؛اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے ہاتھ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا ہاتھ قرارد ے کر ان کی طرف بیعت کرنا؛ اورصحابہ کرام کا خلافت کے لیے آپ کو مقدم کرنا ؛ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اوردوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا گواہی دینا کہ رسول
Flag Counter